سوال:
مفتی صاحب ! فارمی شہد حاصل کرنے میں کافی خرچہ آتا ہے، جبکہ دیسی شہد میں ایسا نہیں ہوتا ہے، سوال یہ ہے کہ کیا فارمی میں اخراجات کی وجہ سے بیسواں حصہ اور دیسی میں دسواں حصہ زکوٰۃ میں ادا کرنا واجب ہوگا؟
جواب: شہد میں عشر کے وجوب کیلئے جتنی روایات مروی ہیں، وہ تمام مطلق ہیں، اس میں مؤنت اور غیر مؤنت کی کوئی قید نہیں، اور فقہاء کرام کی عبارات بھی وجوب عشر کے بارے میں مطلق ہیں، اس میں بھی مؤنت کی قید مذکور نہیں ہے، لہٰذا صورت مسئولہ میں روایات اور عبارات کے عموم کی بناء پر شہد میں وجوب عشر کا حکم عام ہوگا، دیسی اور فارمی دونوں قسم کے شہد میں عشر واجب ہوگا، فارمی شہد میں مؤنت (یعنی چینی وغیرہ کے اخراجات) کی وجہ سے نصف عشر واجب نہ ہوگا۔
(مستفاد از نجم الفتاوی: ج: 3، ص: 226)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن ابن ماجۃ: (584/1، ط: دار احیاء الکتب العربیۃ)
حدثنا محمد بن يحيى قال: حدثنا نعيم بن حماد قال: حدثنا ابن المبارك قال: حدثنا أسامة بن زيد، عن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده عبد الله بن عمرو، عن النبي صلى الله عليه وسلم «أنه أخذ من العسل العشر»
الدر المختار مع رد المحتار: (325/2، ط: دار الفکر)
"(یجب) العشر (في عسل) وإن قل (أرض غیر الخراج) ولو غیر عشریة کجبل ومفازة بخلاف الخراجیة لئلایجتمع العشر والخراج (وکذا) یجب العشر (في ثمرة جبل أو مفازة إن حماه الإمام) لأنه مال مقصود.
(قوله: في عسل) بغیر تنوین فإن قوله: وإن قل معترض بین المضاف والمضاف إلیه … وصرح بالعسل إشارة إلی خلاف مالك والشافعي حیث قالا: لیس فیه شيءٍ؛ لأنه متولد من حیوان فأشبه الإبریسم، ودلیلنا مبسوط في الفتح … (قوله: إن حماه الإمام) الضمیر عائد إلی المذکور وهو العسل والثمرة".
الھندیۃ: (186/1، ط: دار الفکر)
ويجب العشر في العسل إذا كان في أرض العشر۔۔۔الخ
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی