سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! عمر نامی ایک شخص نے خالد کو ایک دوکان سے شمسی پلیٹ وغیره خرید کے دی اور عمر خود مال خرید کر بل ادا کر کے چلا گیا، خالد اور عمر نے آپس میں یہ طے کیا ہے کہ خالد عمر کو دس فیصد نفع دے گا اور یه معاملہ ادھار پر ہوگا، خالد وہاں سے مال اٹھا کے اپنی دوکان پر لاتا ہے تو کیا اس طرح معاملہ کرنا جائز ہے؟
جواب: مذکورہ صورت میں عمر کا سامان خرید کر خالد کو دس فیصد نفع کے ساتھ ادھار پر فروخت کرنا شرعا اس وقت درست ہے، جب عمر پہلے دوکان سے سامان خرید کر خود یا اپنے کسی وکیل کے ذریعے سامان پر قبضہ کرلے٬ پھر خالد کو فروخت کرے٬نیز خالد کے ساتھ ادھار ادائیگی کی مدت طے کرلی جائے٬ اور طے شدہ مدت سے تاخیر کی صورت میں کوئی اضافی رقم نہ لی جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الھندیة: (کتاب البیوع، الباب الرابع عشر في المرابحة، 160/3)
" المرابحۃ بیع بمثل الثمن الأول وزیادۃ ربح -إلی قولہ- والکل جائز"
شرح المجلة: (المادۃ: 245- 246)
"البیع مع تأجیل الثمن وتقسیطہ صحیح … یلزم أن تکون المدۃ معلومۃ في البیع بالتأجیل والتقسیط..."
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی