سوال:
السلام علیکم، حضرت جی ! قسطوں میں یہ شرط لگانا کہ اگر مقررہ تاریخ تک قسط ادا نہیں کی تو قسط ادا نہ کرنے تک مبیع روک لوں گا،
یعنی قسط ادا کرنے تک گاڑی روکنا کیسا ہے، جبکہ اس صورت میں کوئی اضافی چارج نہیں؟
جواب: قسطوں کا کاروبار چونکہ ادھار کا معاملہ (بیع موجل) ہے٬ جس میں بیچنے والا اپنی قیمت کی وصولی کو موخر کرنے پر رضامند ہوجاتا ہے٬ اس لئے اب قسط لیٹ ہونے کی وجہ سے٬ اسے مبیع (بیچی جانے والی) کو روکنے کا حق حاصل نہیں ہوگا٬ لہذا مقررہ تاریخ تک قسط کی ادائیگی نہ کرنے کی صورت میں گاڑی کو روکنے کی شرط لگانا درست نہیں ہے٬ تاہم گاہک کو وقت پر ادائیگی کا پابند کرنے کیلئے کوئی اور مناسب حکمت عملی (مثلا: گروی وغیرہ کی صورت) اختیار کی جاسکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
فقہ البیوع:
"۲۴۸- البیع بالتقسیط:
وکما یجوز ضرب الاجل لاداء الثمن دفعة واحدة٬ کذالك یجوز ان یکون اداء الثمن باقساط٬ بشرط ان یکون آجال الاقساط ومبالغہا متعینة عند العقد٬ وقد یسمی "البیع بالتقسیط"٬ وھو نوع من البیع الموجل.
۲۴۹- التاجیل حق للمشتری فی البیع الموجل:
ومن احکام البیع الموجل والمقسط ان التاجیل حق للمشتری٬ فلایحق للبائع ان یطالب بالثمن قبل حلول الاجل٬ ولایحق لہ ان یحبس المبیع من اجل استیفاء الثمن٬ کما یجوز فی البیع الحال.نعم! یجوز ان یقبضہ المشتری اولا ثم یرھن لدی البائع توثیقا للدین........
ولو کان الثمن موجلا فی العقد فلم یقبض المشتری المبیع حتی حل الاجل٬ فلہ ان یقبضہ قبل نقد الثمن٬ ولیس للبائع حق الحبس عندالحنفیة لانہ اسقط حق نفسہ بالتاجیل٬ والساقط متلاش فلا یحتمل العود. وکذالك لو طرأ الاجل علی العقد٬ بان اخر الثمن بعد العقد فلم یقبض البائع حتی حل الاجل٬ فللمشتری ان یقبض المبیع قبل نقد الثمن٬ ولا یملك البائع حبسہ لما قلنا"
و اللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی