سوال:
مفتی صاحب ! بعض عورتوں کو دیکھا گیا ہے کہ جب وہ اپنے وطن میں ہوتی ہیں، تو پردہ کا بڑا اہتمام کرتی ہیں، لیکن جب حج یا عمرہ کے لئے مکہ مکرمہ جاتی ہیں، تو وہاں پردہ کرنا چھوڑ دیتی ہیں اور حرم میں پردہ نہیں کرتی ہیں اور اگر ان سے کہا جائے کہ پردہ کرو، تو جواب میں کہتی ہیں کہ ہم اللہ کے گھر میں ہیں، کس سے پردہ کریں، یہاں پردہ کی ضرورت نہیں ہے، مجھے یہ بتادیں کہ ان کہ مذکورہ بات کہاں تک درست ہے؟
جواب: واضح رہے کہ اسلام میں عورتوں کو نامحرم سے پردہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور یہ حکم عام ہے اور کسی جگہ یا زمانہ کے ساتھ خاص نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ احرام کی حالت میں بھی عورتوں کو سر کھولنے کی شرعا اجازت نہیں ہے، البتہ وہ عورتیں چہرے کو کپڑے سے اس طرح چھپائیں گی کہ کپڑا چہرے پر نہ لگے اور عورتوں کو تو مسجدِ حرام میں پردہ کا زیادہ اہتمام کرنا چاہیے، کیونکہ وہ اللہ کا گھر ہے، اور شریعت نے تو فتنہ کے خوف سے عورتوں پر با آواز بلند تلبیہ پڑھنے پر بھی پابندی لگائی ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں مذکوره عورتوں کی یہ بات کہ " ہم اللہ کے گھر میں ہیں، یہاں پردہ کی ضرورت نہیں ہے " درست نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (الاحزاب، الآیۃ: 59)
یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلۡ لِّاَزۡوَاجِکَ وَ بَنٰتِکَ وَ نِسَآءِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ یُدۡنِیۡنَ عَلَیۡہِنَّ مِنۡ جَلَابِیۡبِہِنَّ ؕ ذٰلِکَ اَدۡنٰۤی اَنۡ یُّعۡرَفۡنَ فَلَا یُؤۡذَیۡنَ ؕ وَ کَانَ اللہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًاo
سنن ابی داود: (167/2، ط: المکتبۃ العصریۃ)
عن مجاهد، عن عائشة، قالت: «كان الركبان يمرون بنا ونحن مع رسول الله صلى الله عليه وسلم محرمات، فإذا حاذوا بنا سدلت إحدانا جلبابها من رأسها على وجهها فإذا جاوزونا كشفناه»
الدر المختار: (528/2، ط: دار الفکر)
(ولا تلبي جهرا) بل تسمع نفسها دفعا للفتنة؛ وما قيل إن صوتها عورة ضعيف۔۔الخ
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی