عنوان: جانور کو آدھے حصے پر پالنے کےلیے دینا (6932-No)

سوال: السلام علیکم، مفتی صاحب ! زید نے عمر کے ساتھ بکری میں اس طور پر شراکت کی کہ بکری زید کی ہی رہے گی اور اس سے جو بچے پیدا ہوں گے، وہ دونوں کے درمیان برابر ہونگے، کیا اس طرح کی شراکت کرنا درست ہے؟

جواب: واضح رہے کہ جانور کو نصف حصے پر پالنے کے لیے دینا شرعا جائز نہیں، اس سے اجارہ فاسد ہوتا ہے،اس لیے کہ پتہ نہیں جانور بچہ جنے گا یا نہیں،اگر جنے گا تو معلوم نہیں کتنے جنے گا، لہذا جانور بدستور مالک(زید) کی ملکیت میں رہےگا اور اجیر(عمر) نے اسے جتنا چارہ اپنی ملکیت میں سے کھلایا، اس کی قیمت اور جتنے دن جانور کو پالا، اس کی مزدوری مالک یعنی زید عمر کو ادا کرے گا اور عمر نے اس جانور کا جتنا دودھ وغیرہ استعمال کیا، اتنا ہی دودھ یا اس کی قیمت مالک کو ادا کرے گا۔
اس کی جائز اور متبادل صورت یہ ہے کہ زید اپنے پیسوں سے جانور خریدے اور پھر عمر کے ہاتھ اس کا آدھا حصہ آدھی قیمت پر بیچ دے ،پھر زید عمر کو وہ پیسے معاف کردے،تو دونوں کے درمیان وہ جانور مشترک ہوجائے گا، اس جانور سے جو بچے پیدا ہوجائیں، ہر ہر بچے میں زیداور عمر برابر شریک ہوں گےاور اس طرح اس جانورکے دودھ میں بھی دونوں برابر شریک ہوں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الهندية: (446/4، ط: دار الفكر)
دفع بقرة إلى رجل على أن يعلفها وما يكون من اللبن والسمن بينهما أنصافا فالإجارة فاسدة وعلى صاحب البقرة للرجل أجر قيامه وقيمة علفه إن علفها من علف هو ملكه لا ما سرحها في المرعى ويرد كل اللبن إن كان قائما، وإن أتلف فالمثل إلى صاحبها لأن اللبن مثلي، وإن اتخذ من اللبن مصلا فهو للمتخذ ويضمن مثل اللبن لانقطاع حق المالك بالصنعة.....والحيلة في جوازه أن يبيع نصف البقرة منه بثمن ويبرئه عنه ثم يأمر باتخاذ اللبن والمصل فيكون بينهما.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 2393 Feb 26, 2021
janwar ko aadhy hissay par palnay kay liye dena, To feed / bring up the animal in half

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Employee & Employment

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.