سوال:
مفتی صاحب ! میں پچاس ایکڑ زمین کا مالک ہوں، جس پر چاول وغیرہ کی کاشت کی جاتی ہے، میرے پاس اتنی نقد رقم موجود نہیں ہے، جس سے میں حج پر جاسکوں، آپ یہ بتادیں کہ کیا پچاس ایکڑ زمین کا مالک ہونے کی صورت میں مجھ پر حج فرض ہے؟
جواب: واضح رہے کہ حج کی ادائیگی اس شخص پر واجب ہوتی ہے، جو حاجاتِ اصلیہ اور حج سے واپس آنے تک اپنے اہل وعیال کے خرچہ کے علاوہ اتنی رقم کا مالک ہو، جو حج کے تمام اخراجات کیلئے کافی ہوجائے، لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر آپ اپنی زمین کا کچھ حصہ فروخت کرکے حج کے اخراجات ادا کریں اور آپ کے پاس اتنی زمین باقی بچے کہ جس سے آپ کا اور آپ کے اہل و عیال کا خرچہ پورا ہوجاتا ہو، تو اس صورت میں آپ پر زمین فروخت کرکے حج کرنا فرض ہے اور اگر زمین فروخت کرنے کی صورت میں باقی ماندہ جائیداد سے آپ کا اور آپ کے اہل وعیال کا خرچہ پورا نہ ہوسکتا ہو، تو آپ پر زمین فروخت کرکے حج کرنا فرض نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الھندیة: (217/1، ط: دار الفکر)
(ومنها القدرة على الزاد والراحلة) بطريق الملك أو الإجارة۔۔۔۔۔۔وتفسير ملك الزاد والراحلة أن يكون له مال فاضل عن حاجته، وهو ما سوى مسكنه ولبسه وخدمه، وأثاث بيته قدر ما يبلغه إلى مكة ذاهبا وجائيا راكبا لا ماشيا وسوى ما يقضي به ديونه ويمسك لنفقة عياله، ومرمة مسكنه ونحوه إلى وقت انصرافه كذا في محيط السرخسي۔۔الخ
و فیھا ایضا: (218/1، ط: دار الفکر)
إن كان صاحب ضيعة إن كان له من الضياع ما لو باع مقدار ما يكفي الزاد والراحلة ذاهبا وجائيا ونفقة عياله، وأولاده ويبقى له من الضيعة قدر ما يعيش بغلة الباقي يفترض عليه الحج، وإلا فلا
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی