سوال:
مفتی صاحب! خاتمہ بالخیر کے اعمال ارشاد فرمادیں۔
جواب: قرآن وسنت کی تعلیمات کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ نجات کا واحد راستہ اللہ پاک اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات اور ان کی تعلیمات پر عمل کرنے میں ہے٬ اس لئے زندگی کے ہر موڑ پر دین متین کی اتباع٬ اور گناہوں سے بچنے کی کوشش کرنے ساتھ ساتھ٬ "حسن خاتمہ" کے سلسلے میں علماء کرام نے جن اعمال واسباب کا ذکر کیا ہے٬ ان کا بھی اہتمام کریں٬ تو ان شاء اللہ ایمان اور اعمال صالحہ پر خاتمہ ہوگا٬ ان میں سے چند اعمال درج ذیل ہیں:
1- موجودہ ایمان پر شکر ادا کرتے رہنا
2- اذان کا جواب دینا
3- پابندی کے ساتھ مسواک کرنا
4- اللہ کی راہ میں صدقہ وخیرات کرنا
5- یتیم کی کفالت کرنا
6- اہل اللہ (اللہ کے نیک بندوں) کی صحبت اختیار کرنا
7- کثرت ذکر
8- کثرت درود شریف
نیز اس سلسلے میں قرآن وحدیث میں سکھائی گئی درج ذیل دعاؤں کا بھی اہتمام کرنا چاہئے:
1)- رَبَّنَا لَا تُزِغۡ قُلُوۡبَنَا بَعۡدَ اِذۡ ہَدَیۡتَنَا وَ ہَبۡ لَنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ رَحۡمَۃً ۚ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡوَہَّابُ
(سورة اٰل عمرٰن:08)
اے ہمارے رب! تو نے ہمیں جو ہدایت عطا فرمائی ہے٬ اس کے بعد ہمارے دلوں میں ٹیڑھ نہ پیدا ہونے دے٬ اور خاص اپنے پاس سے ہمیں رحمت عطا فرما٬ بے شک تیری اور صرف تیری ذات وہ ہے جو بے انتہاء بخشش کی خوگر ہے۔
2)- یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰى دِینِکَ
اے دلوں کو پھیرنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھ
واضح رہے کہ حسن خاتمہ کے لیے بنیادی چیز عقائد کی درستگی ہے٬ اگر عقائد درست ہوں٬ کفر و شرک کا عقیدہ نہ ہو٬ اور اتباع سنت کے مطابق زندگی گذارنے کی کوشش کی جائے٬ تو مذکورہ بالا اعمال اور دیگر تمام مسنون اعمال حسن خاتمہ کے لیے معاون ثابت ہونگے٬ اللہ پاک ہم سب کا ایمان اور اعمال صالحہ پر خاتمہ فرمائے٬ آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (الاحزاب، الآیة: 71)
"ومَن يُطِعْ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًاo
و قوله تعالی: (ابراھیم، الآیة: 7)
" و اِذْ تَاَذَّنَ رَبُّكُمْ لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ ۔۔۔۔الخ
صحيح مسلم: (باب الإحسان إلى الأرملة و المسكين و اليتيم٬ رقم الحدیث: 2983)
"عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «كافل اليتيم له أو لغيره أنا وهو كهاتين في الجنة» وأشار مالك بالسبابة والوسطى"
سنن الترمذی: (144/1، ط: قدیمی)
" عنْ اَنَسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ اَنَّ الصَّدَقَۃَ تُطْفِیءُ غَضْبَ الرَّبِّ وَتَدْفَعُ مِیْتَۃَ السُّوْءِ "
عون المعبود: (162/2، ط: دار الكتب العلمية)
"عن جابر بن عبد الله، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من قال: حين يسمع النداء اللهم رب هذه الدعوة التامة والصلاة القائمة، آت محمدا الوسيلة والفضيلة وابعثه مقاما محمودا الذي وعدته، إلا حلت له الشفاعة يوم القيامة .........
قاله في فتح الودود (حلت له) أي وجبت وثبتت (الشفاعة) فيه بشارة إلى حسن الخاتمة"
سنن الترمذي: (باب ما جاء أن القلوب بين أصبعي الرحمن٬ رقم الحدیث: 2140)
"کان رسول الله صلى الله عليه وسلم يكثر أن يقول: يا مقلب القلوب ثبت قلبي على دينك، فقلت: يا رسول الله، آمنا بك وبما جئت به فهل تخاف علينا؟ قال: نعم، إن القلوب بين أصبعين من أصابع الله يقلبها كيف يشاء"
مشكوة المصابيح: (رقم الحدیث: 1621)
عن معاذ بن جبل قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من كان آخر كلامه لا إله إلا الله دخل الجنة» رواه أبو داود"
الدر المختار مع رد المحتار: (115/1، ط: دار الفکر)
"ومن منافعه أنه شفاء لما دون الموت، ومذكر للشهادة عنده"
مطلب في منافع السواك.........
وأعلاها تذكير الشهادة عند الموت، رزقنا الله بمنه وكرمه (قوله: عنده) أي عند الموت"
و اللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی