سوال:
سوال یہ ہے کہ کیا 27 رجب کی شب کو جاگنا، نوافل کا اہتمام کرنا اور روزہ رکھنا بدعت ہے؟
جواب: رجب کا مہینہ چار حرمت والے مہینوں میں سے ہے اور ان مہینوں میں نیک اعمال کرنا دوسرے مہینوں کی بنسبت زیادہ افضل ہے اور اس کا ثواب بھی زیادہ ہے ، لیکن اس مہینے کی ستائیس تاریخ کو شب معراج منانا ، دن کو روزہ اور رات کو قیام کرنا، محافل نعت اور مختلف دینی مجالس منعقد کرنا اورمساجد میں چراغاں وغیرہ کرنا اور یہ خیال کرنا کہ ستائیس رجب کو حضور اکرم ﷺ کا سفر معراج ہوا تھا تو واضح رہے کہ اس رات کی قرآن و حدیث سے کسی قسم کی کوئی خاص فضیلت ثابت نہیں ہے اور نہ ہی روزہ اور نوافل کی کوئی خاص فضیلت ثابت ہے،محدثینِ کرام نے اپنی کتابوں میں اس کی تردید کی ہے ، چنانچہ حافظ ابن حَجر عسقلانیؒ نے اپنی کتاب ’’تبیین العجب مما ورد فی فضل رجب ‘‘میں لکھا ہے:"رجب کی فضیلت میں، اِس کے روزوں کی فضیلت میں، اِس کے کسی دِن میں خاص طور پر کوئی روزہ رکھنے کی فضیلت میں اور اِس کی کسی خاص رات میں قیام کرنے کے بارے میں کوئی ايسی صحیح حدیث نہيں ملتی ہے جو قابل حُجت ہو۔"
علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے فرماتے ہیں :’’خاص طور پر ماہ رجب کے متعلق کوئی صحیح ،حسن یا کم درجے کی ضعیف سنت وارد نہیں، بلکہ اس سلسلے میں وارد تمام روایات یا تو من گھڑت اورجھوٹی ہیں یا شدید ضعیف ہیں ۔ ‘‘
علامہ ابن قیمؒ نے فرمایا ہے :’’رجب کے روزے اور اس کی کچھ راتوں میں قیام کے متعلق جتنی بھی احادیث بیان کی جاتی ہیں، وہ تمام جھوٹ اور بہتان ہیں ۔"
اسی طرح پہلے زمانے میں رجب کے پہلے جمعہ کو ’’ صلاۃ الرغائب"نامی نماز پڑھی جاتی تھی، جیسے کہ آج کل رجب کی ستائیسویں رات کو مخصوص قسم کی نمازیں پڑھی جاتی ہیں ، ان نوافل کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔
علامہ نوویؒ نے اس نماز کے بارے میں لکھا ہے کہ" اللہ تعالى اس كے گھڑنے اور ايجاد كرنے والے كو تباہ و برباد كرے، كيونكہ يہ منكرات اور ان بدعات ميں سے ہیں جو گمراہى اور جہالت ہيں اور اس ميں كئى ظاہر منكرات پائى جاتى ہيں۔۔۔۔اس كى قباحت، بطلان اور اس پر عمل كرنے والے كى گمراہى كے دلائل شمار نہيں كيے جا سكتے ہیں۔
علامہ ابن رجب حنبلی ؒ نے اس نماز کے بارے میں لکھا ہے کہ جمہور علماء کے نزدیک یہ نماز بدعت ہے اورمتقدمین تو اس نماز کو جانتے نہ تھےکیونکہ یہ چارصدیوں کے بعد ظاہر ہوئی ہے۔
فقہائے کرام نے بھی اس پر سخت نکیر فرمائی ہے اور اسے بدعت قرار دیا ہے۔
علامہ شامی نے لکھا ہے کہ اس مسئلہ ميں علامہ نور الدين المقدسىؒ كى " ردع الراغب عن صلاۃ الرغائب " كے نام سے ايك بہترين تصنيف ہے، جس ميں انہوں نے مذاہب اربعہ كے متقدمين اور متاخرين علماء كرام كےكلام كو جمع كيا ہے۔
خلاصہ کلام :
ستائیس رجب کے خصوصی نوافل اور روزوں کا اہتمام کہیں سےثابت نہیں ہے، نہ کبھی حضور اکرم ﷺنے کیا، نہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے اور نہ ہی تابعین عظام رحہم اللہ نے کیا، لہذا اس مہینے میں تخصیص کے ساتھ کسی عبادت کو ضروری سمجھنا درست نہیں ہے، ہاں تخصیص اور التزام کے بغیر جس قدر ہوسکے، اس پورے مہینے میں عبادت کا زیادہ اہتمام کرنا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
تبيين العجب مما ورد في فضل رجب لابن حجر العسقلاني: (ص: 23، ط: مؤسسة الرسالة)
لم يرد في فضل شهر رجب، ولا في صيامه، ولا فى صيام شيء معين منه ولا في ليلة مخصوصة فيه.... حديث صحيح للحجة
السیل الجرار للشوکانی: (143/2، ط: دار الكتب العلمية)
لم يرد فی رجب علی الخصوص سنة صحيحة ولاسنة ولاضعيفة ضعفا خفيفا بل جميع ما روی فيه علی الخصوص امام موضوع مکذوب أو ضعيف شديد الضعف‘
المنار المنیف لابن قیم: (ص: 66، ط: دار العاصمة)
كل حديث في ذكر صوم رجب و صلاة بعض الليالي فيه كذب مفتري.
شرح النووي على صحيح مسلم: (20/8، ط: مؤسسة قرطبة)
واحتج به العلماء على كراهة هذه الصلاة المبتدعة التي تسمى الرغائب قاتل الله واضعها ومخترعها فإنها بدعة منكرة من البدع التي هي ضلالة وجهالة وفيها منكرات ظاهرة وقد صنف جماعة من الأئمة مصنفات نفيسة في تقبيحها وتضليل مصليها ومبتدعها ودلائل قبحها وبطلانها وتضلل فاعلها أكثر من أن تحصر والله أعلم
لطائف المعارف لابن رجب الحنبلى: (ص: 228، ط: دار ابن كثير)
فأما الصلاة فلم يصح في شهر رجب صلاة مخصوصة تختص به والأحاديث المروية في فضل صلاة الرغائب في أول ليلة جمعة من شهر رجب كذب وباطل لا تصح وهذه الصلاة بدعة عند جمهور العلماء ومن ذكر ذلك من أعيان العلماء المتأخرين من الحفاظ أبو إسماعيل الأنصاري وأبو بكر بن السمعاني وأبو الفضل بن ناصر وأبو الفرج بن الجوزي وغيرهم إنما لم يذكرها المتقدمون لأنها أحدثت بعدهم وأول ما ظهرت بعد الأربعمائة فلذلك لم يعرفها المتقدمون ولم يتكلموا فيها.
رد المحتار: (26/2، ط: دار الفکر)
مطلب في صلاة الرغائب
قال في البحر: ومن هنا يعلم كراهة الاجتماع على صلاة الرغائب التي تفعل في رجب في أولى جمعة منه وأنها بدعة، وما يحتاله أهل الروم من نذرها لتخرج عن النفل والكراهة فباطل اه.
قلت: وصرح بذلك في البزازية كما سيذكره الشارح آخر الباب، وقد بسط الكلام عليها شارحا المنية، وصرحا بأن ما روي فيها باطل موضوع، وبسطا الكلام فيها خصوصا في الحلية وللعلامة نور الدين المقدسي فيها تصنيف حسن سماه ردع الراغب، عن صلاةكالرغائب، أحاط فيه بغالب كلام المتقدمين والمتأخرين من علماء المذاهب الأربعة.
معارف القرآن: (372/4، ط: ادارۃ المعارف)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی