عنوان: تعویذ پر اجرت لینے کا حکم (6995-No)

سوال: مفتی صاحب! کیا تعویذ پر اجرت لے سکتے ہیں؟ نیز کیا کسی صحابی نے اجرت لی ہے؟

جواب: اس سوال میں تین باتیں تحقیق طلب ہیں:
۱۔تعویذ لٹکانے کا جواز اور احادیث سے اس کا ثبوت:
واضح رہے کہ جس طرح بیماری کی صورت میں دوائی کا استعمال جائز ہے ،اسی طرح تعویذ اور دم بھی جائز ہے اور یہ محض ایک طریقہ علاج ہے، اور اس کے جواز پر اجماع ہے ،البتہ تعویز اور دم کے لئے تین شرائط کا پایا جانا لازمی ہے، اگر وہ تین شرائط نہ ہوں تو پھر اس کے ناجائز ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے، وہ شرائط یہ ہیں:
۱…تعویذات کے الفاظ قرآن کریم سے ہوں یا اللہ کے اسماء و صفات سے ہوں۔
۲…عربی زبان میں ہوں اور اگر کسی عجمی زبان میں ہوں تو اس کے الفاظ کے معانی معلوم ہوں۔
۳…دم کرنے اور کرانے والا دونوں یہ اعتقاد رکھتے ہوں کہ دم اور تعویذ میں خود کوئی تاثیر نہیں، بلکہ مؤثرحقیقی صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، یہ دم اور تعویذ صرف سبب اور ذریعہ ہیں۔
تعویذ کے جواز پر کئی احادیث شاہد ہیں۔
سنن أبوداؤد کی روایت میں ہے :عن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يعلمهم من الفزع كلمات: «أعوذ بكلمات الله التامة، من غضبه وشر عباده، ومن همزات الشياطين وأن يحضرون» وكان عبد الله بن عمر يعلمهن من عقل من بنيه، ومن لم يعقل كتبه فأعلقه عليه۔(سنن أبی داؤد، حدیث نمبر:۳۸۹۳، ج:۴، ص:۱۲،ط: المكتبة العصرية)
ترجمہ:عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ گھبراہٹ کے لئے انہیں یہ کلمات سکھاتے تھے «أعوذ بكلمات الله التامة، من غضبه وشر عباده، ومن همزات الشياطين وأن يحضرون» یعنی ’’میں پناہ مانگتا ہوں اللہ تعالیٰ کے تمام کلمات کی اس کے غضب سے اور اس کے برے بندوں سے اور شیاطین کے وسوسوں سے اور اس بات سے کہ وہ میرے پاس آئیں’’ اور حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کا یہ معمول تھا کہ ان کے بیٹوں میں سے جو عقل مند (بالغ ہوتا) تو اسے آپ یہ کلمات سکھلاتے اور جو نادان (نابالغ) ہوتا تو ان کلمات کو لکھ کر اس کے اوپر گلے میں لٹکا دیتے۔
مذکورہ بالاروایت احادیث مبارکہ کی کئی کتب میں ذکرکی گئی ہے۔(تفصیل کےلئے حاشیہ دیکھئے)امام ترمذی ؒ نے اس حدیث کوحسن کہا ہے اور علامہ ابن حجر ؒنے بھی ’’نتائج الافکار‘‘میں اس حدیث کوحسن قراردیا ہے۔
بذل المجہود شرح أبی داؤد میں اس حدیث کی تشریح میں لکھا ہے:فیہ دلیل علی جوازکتابۃ التعاویذ والرقی وتعلیقھا۔(ج:۱۱، ص:۶۲۲،ط: دارالبشائر)
ترجمہ:یہ حدیث تعویذات لکھنے، دم کرنے، اور اس کے گلے میں ڈالنے کے جائز ہونے پر دلیل ہے۔ اور اس روایت کی آثار صحابہ اور تابعین سے بھی تائید ہوتی ہے۔
عن أبي عصمة، قال: سألت سعيد بن المسيب عن التعويذ، فقال: «لا بأس إذا كان في أديم»(مصنف أبن أبی شیبہ،حدیث نمبر: ۲۳۵۴۳،ج:۵، ص:۴۳،ط:مکتبۃ الرشد)
ترجمہ:حضرت أبوعصمہ سے روایت ہے کہ میں سعید بن مسیب (مشہورتابعی) سے تعویذ کےمتعلق پوچھا ، آپ نے فرمایا:کوئی حرج نہیں ہے، جب چمڑے میں (بند) ہو۔
عن ثوير، قال: «كان مجاهد يكتب للناس التعويذ فيعلقه عليهم»(مصنف أبن أبی شیبہ،حدیث نمبر: ۲۳۵۴۳،ج:۵، ص:۴۳،ط:مکتبۃ الرشد)
ترجمہ:مشہورتابعی امام مجاہدؒ لوگوں کےلئے تعویذ لکھتے اور اس کو لٹکاتے تھے۔
صحیح مسلم میں روایت ہے:عن جابر، قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الرقى، فجاء آل عمرو بن حزم إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالوا: يا رسول الله إنه كانت عندنا رقية نرقي بها من العقرب، وإنك نهيت عن الرقى، قال: فعرضوها عليه، فقال: «ما أرى بأسا من استطاع منكم أن ينفع أخاه فلينفعه»(صحیح مسلم ، حدیث نمبر:۲۱۹۹، ج:۴، ص:۱۷۲۶،ط:دارإحیاء التراث العربی)
ترجمہ: حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دم کرنے سے منع کردیا تھا ،عمرو بن حزم کی آل نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: اے اللہ کے رسول ( ﷺ )! ہمارے پاس ایک دم (یعنی وظیفہ یا کچھ کلمات) ہے، جس کے ذریعے ہم بچھو کے ڈسنے پر دم کرتے ہیں اور آپ ﷺ نے تو دم کرنے سے منع فرمایا ہے، راوی کہتا ہیں کہ پھر انہوں نے اس دم کو آپ ﷺ کے سامنے پیش کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا :میں اس دم کے الفاظ میں کوئی قباحت نہیں پاتا ،تم میں سے جو کوئی اپنے بھائی کو فائدہ پہنچانے کی طاقت رکھتا ہو تو وہ اسے فائدہ پہنچائے۔
مسلم شریف کی ایک اور روایت میں ہے:عن عوف بن مالك الأشجعي، قال: كنا نرقي في الجاهلية فقلنا يا رسول الله كيف ترى في ذلك فقال: «اعرضوا علي رقاكم، لا بأس بالرقى ما لم يكن فيه شرك»(صحیح مسلم ، حدیث نمبر:۲۲۰۰، ج:۴، ص:۱۷۲۷،ط:دارإحیاء التراث العربی)
ترجمہ:حضرت عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم جاہلیت میں دم کیا کرتے تھے، ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ! آپ اس بارے میں کیا ارشاد فرماتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تم کلمات دم میرے سامنے پیش کرو اور ایسے دم میں کوئی حرج نہیں جس میں شرک نہ ہو۔
علامہ شامی ؒ فرماتے ہیں:ناپسندیدہ تعویذ وہ ہے، جو قرآن کے علاوہ ہو، اور تعویذات سے شفاء حاصل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، جن میں قرآن یا اﷲتعالی کے نام لکھے ہوں اور وہ تعویذات جو عربی زبان کے علاوہ ہوں اور پتہ نہ چلے یہ کیا ہے، ممکن ہے اس میں جادو، کفر وغیرہ شامل ہو جائے، مگر وہ تعویذ جو قرآن سے ہو یا کوئی دعا ہو، اس میں حرج نہیں ہے۔
حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب مدظلہ ’’مسلم شریف‘‘کی شرح ’’تکملۃ فتح الملہم‘‘میں لکھتے ہیں:دم کے بارے میں اصل یہ ہے کہ قرآن کریم، یا اللہ تعالی کے اسماءمبارکہ، یاصفات مبارکہ پڑھ کر مریض پردم کیاجائے اور یہ جناب رسول اللہ ﷺ سے کئی احادیث سے ثابت ہے اور تعویذ ات لکھنا اور اس کو بچوں یا بیماروں کے گلے میں ڈالنا یا لکھ کر پانی میں گھول کرمریض کو پلانا، کئی صحابہ کرام اور تابعین کرام سے ثابت ہے۔۔۔۔اور احادیث مبارکہ میں جن دموں اور تعویذات سے منع کیا گیا ہے ، وہ مشرکین کےدم تھے، جن میں شیطان سے مدد لیا کرتے تھے اور وہ دم جن میں شرکیہ کلمات نہ ہوں، وہ جائز ہیں اور کئی احادیث سے ثابت ہیں اور یہی حال حرام " تمائم "(وہ ڈوری ،جسے مشرکین مؤثر بالذات سمجھ کر بچوں کے گلے میں نظربد سے بچانے کےلیے ڈالتےتھے) کا ہے اور ان حرام تمائم کا آیات قرآنیہ اور اسماء باری تعالی پر مشتمل تعویذات سے کوئی تعلق نہیں ہے ، یہ تعویذات جمہور علمائے کرام کے نزدیک جائز ہیں ، بلکہ بعض علمائے کرام نے اس کو مستحب قراردیا ہے ،جب منقول و مأثور اذکار پر مشتمل ہوں۔
اس پوری تفصیل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ کسی مرض کےلئے تعویذات کا استعمال اسباب کے درجے میں جائز ہے، بشرطیکہ شرکیہ کلمات پر مشتمل نہ ہو اور اس کو مؤثر بالذات نہ سمجھا جائے ۔
تعویذ پر اجرت لینے کا جواز اور احادیث سے اس کا ثبوت:
تعویذات پر اجرت لینا جا ئز ہے ،بشرطیکہ تعویذ خلا ف ِشرع امو ر کے لیے نہ ہو۔
صحیح مسلم میں ہے:عن أبي سعيد الخدري، أن ناسا من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم كانوا في سفر، فمروا بحي من أحياء العرب، فاستضافوهم فلم يضيفوهم، فقالوا لهم: هل فيكم راق؟ فإن سيد الحي لديغ أو مصاب، فقال رجل منهم: نعم، فأتاه فرقاه بفاتحة الكتاب، فبرأ الرجل، فأعطي قطيعا من غنم، فأبى أن يقبلها، وقال: حتى أذكر ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم، فأتى النبي صلى الله عليه وسلم فذكر ذلك له، فقال: يا رسول الله والله ما رقيت إلا بفاتحة الكتاب فتبسم وقال: «وما أدراك أنها رقية؟» ثم قال: «خذوا منهم، واضربوا لي بسهم معكم»(حدیث نمبر:۲۲۰۱۔ج:۴، ص:۱۷۲۷،ط:دارإحیاء التراث العربی)
ترجمہ:حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے اصحاب میں سے بعض صحابہ رضی اللہ عنہم ایک سفر میں جا رہے تھے، وہ عرب قبائل میں سے ایک قبیلہ کے پاس سے گزرے تو انہوں نے ان قبیلہ والوں سے مہمانی طلب کی، لیکن انہوں نے مہمان نوازی نہ کی پھر انہوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے پوچھا کیا تم میں کوئی دم کرنے والا ہے، کیونکہ قبیلہ کے سردار کو (کسی جانور نے) ڈس لیا ہے یا کوئی تکلیف ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے کہا جی ہاں!پس وہ اس کے پاس آئے اور اسے سورت فاتحہ کے ساتھ دم کیا تو وہ آدمی تندرست ہوگیا، انہیں بکریوں کا ریوڑ دیا گیا،لیکن اس صحابی نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ جب تک اس کا ذکر میں نبی ﷺ سے نہ کرلوں نہیں لوں گا، وہ نبی ﷺ کے پاس حاضر ہوا اور آپ ﷺ سے یہ سارا واقعہ ذکر کیا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول! اللہ کی قسم میں نے سورہ فاتحہ ہی کے ذریعے دم کیا ہے، آپ ﷺ مسکرائے اور فرمایا:تمہیں یہ کیسے معلوم ہوا کہ یہ دم ہے؟ پھر فرمایا: ان سے(ریوڑ) لے لو اور ان میں سے اپنے ساتھ میرا حصہ بھی رکھو۔
مذکورہ بالا روایت بخاری ، مسلم ، أبوداؤد ،سنن ترمذی اور احادیث مبارکہ کی دیگر کتب میں ذکر کی گئی ہے ۔
بخاری شریف کی ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے اجرت لینے والے صحابی سے فرمایا: «إن أحق ما أخذتم عليه أجرا كتاب الله»
(حدیث نمبر:۵۷۳۷، ج:۷، ص:۱۳۱، ط:دارطوق النجاۃ
)
ترجمہ:جن چیزوں پر اجرت لینی جائز ہے ان میں سب سے مستحق کتاب اللہ ہے۔
اس روایت سے دم اورتعویذ پر اجرت لینے کا ثبوت ملتا ہے۔
بذل المجہود شرح أبی داؤد میں اس حدیث کی تشریح میں لکھا ہے کہو فی الحدیث أعظم دلیل علی أن یجوز الأجرۃ علی الرقی و الطب کما قالہ الشافعی،و مالک ،و أبوحنیفۃ، وأحمد۔(بذل المجہودشرح أبی داؤد،ج:۱۱، ص:۶۲۸،ط: دارالبشائر)
ترجمہ:یہ حدیث دم ، تعویذاور طب پر اجرت کے جائز ہونے کی بڑی دلیل ہے، جیسے کہ امام شافعی، مالک، أبوحنیفہ اورأحمد رحمہم اللہ نے فرمایا۔
شامی میں ہے کہ لأن المتقدمين المانعين الاستئجار مطلقا جوزوا الرقية بالأجرة ولو بالقرآن كما ذكره الطحاوي؛ لأنها ليست عبادة محضة بل من التداوي. (الشامیۃ،ج:۶،، ص:۵۷،ط:دارالفکر)
ترجمہ:قرآن کریم پر مطلقاًاجرت لینے سے منع کرنے والے متقدمین علماء نے بھی دم اور تعویذ پر اجرت لینے کو جائز قراردیاہے، جیسے کہ امام طحاوی ؒ نے ذکرکیا، اس لئے یہ خالص عبادت کی قبیل سے نہیں ہے، بلکہ علاج ، معالجہ کی قبیل سے ہے۔
اس ساری تفصیل سے ثابت ہواکہ دم اور تعویذ پر اجرت لینا جائز ہے، بشرطیکہ تعویذ میں خلافِ شرع مضمون نہ ہو اور لکھنے والا اس فن کو جانتاہو۔

تعویذات لکھنے والے کی امامت کا حکم:
جائز طریقہ پر تعویذ ات لکھنے والے کی امامت درست ہے، جائز طریقہ کا مطلب یہ ہے کہ وہ تعویذات قرآن وحدیث اور اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات کے ذریعے یا ایسے کلام کے ذریعے کیا جائے، جس میں شرکیہ کلمات نہ ہوں اور وہ عربی زبان میں ہو یا ایسی زبان میں ہو، جس کے معنی معلوم ہوں اور اس کو مؤثر بالذات سمجھنے کا اعتقاد نہ ہو، بلکہ اسکا اعتقاد یہ ہو کہ مؤثر حقیقی فقط اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور تعویذ دوسرے اسباب کی طرح ایک سبب ہے، جو نفع ونقصان دینے میں اللہ تعالیٰ کے حکم کا محتاج ہے، لہٰذا قرآنی آیات اور اَدعیۂ ماثورہ کے ذریعہ تعویذات لکھنے والے کی امامت درست ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

سنن أبی داؤد: (رقم الحدیث: 3893، 12/4، ط: المكتبة العصرية)
عن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يعلمهم من الفزع كلمات: «أعوذ بكلمات الله التامة، من غضبه وشر عباده، ومن همزات الشياطين وأن يحضرون» وكان عبد الله بن عمر يعلمهن من عقل من بنيه، ومن لم يعقل كتبه فأعلقه عليه۔

سنن الترمذی: رقم الحدیث: 3538، 541/5، ط: داراحیاء التراث العربی)
مسند احمد: (رقم الحدیث: 6696، 295/11، ط: مؤسسة الرسالة)
السنن الکبري للنسائی: (رقم الحدیث: 10533، ط: مؤسسة الرسالة)
کتاب الدعاء للطبراني: 1086، ط: دار الکتب العلمیة)
المستدرک للحاکم: (2010، 733/1، ط: دارالکتب العلمیة)
کتاب الآداب للبيهقي: (ص: 282، (686)، ط: مؤسسة الکتب الثقافیة)
و في الدعوات الکبیر:552/1 (439)(598)، ط: غراس للنشر،
و ابن ابی شیبۃ في مصنفہ:44/5 (23547)(23604)(80/6 (29631) ط: مکتبة الرشد٫
و ابن بطۃ في ابانۃ الکبری: 258/5 (31) ط: دارالرایۃ۔

فتح الباری: (195/10، ط: دار المعرفۃ)
وقد أجمع العلماء على جواز الرقى عند اجتماع ثلاثة شروط أن يكون بكلام الله تعالى أو بأسمائه وصفاته وباللسان العربي أو بما يعرف معناه من غيره وأن يعتقد أن الرقية لا تؤثر بذاتها بل بذات الله تعالى واختلفوا في كونها شرطا والراجح أنه لا بد من اعتبار الشروط المذكورة۔

رد المحتار: (365/6، ط: دار الفکر)
التميمة المكروهة ما كان بغير القرآن، وقيل: هي الخرزة التي تعلقها الجاهلية اه فلتراجع نسخة أخرى. وفي المغرب وبعضهم يتوهم أن المعاذات هي التمائم وليس كذلك إنما التميمة الخرزة، ولا بأس بالمعاذات إذا كتب فيها القرآن، أو أسماء الله تعالى، ويقال رقاه الراقي رقيا ورقية إذا عوذه ونفث في عوذته قالوا: إنما تكره العوذة إذا كانت بغير لسان العرب، ولا يدرى ما هو ولعله يدخله سحر أو كفر أو غير ذلك، وأما ما كان من القرآن أو شيء من الدعوات فلا بأس به۔

تکملۃ فتح الملہم: (317/4- 318، ط: مکتبۃ دار العلوم کراتشی)
ثم ان الاصل فی باب الرقیۃ أن یکون بقرأۃ القرآن الکریم أو بعض أسماء اللہ تعالی أو صفاتہ، وینفث بھا المریض ، وقدثبت ذلک من النبی ﷺفی عدۃ أحادیث،أماکتابۃ المعوذات و تعلیقھا فی عنق الصبیان و المرضی، أو کتابتھا و سقی مدادھا للمریض ،فقد ثبت عن عدۃ من الصحابۃ والتابعین رضی اللہ عنھم ۔۔۔۔ و فی ھذہ الآثارحجۃ علی من زعم فی عصرنا أن کتابۃ التعاویذ وسقیھا أوتعلیقھا ممنوع شرعاً وقد توغل بعضھم حتی زعم أنہ شرک،واستدل بما أخرجہ أبو داؤد(رقم ۳۸۸۳)عن زینب امرأۃ عبد اﷲ عن عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ قال سمعت رسول اللہ ﷺ یقول:’’ان الرقی والتمائم والتولۃ شرک‘‘ولکن فی تمام ھذا الحدیث مایردّ علی ھذا الاستدلال، وفیہ’’قالت:قلت:لم تقول ھذا ؟ وا ﷲ لقد کانت عینی تقذف(؟)وکنت أختلف الی فلان الیھودیّ یرقینی،فاذا رقانی سکنت فقال عبد اﷲ:انما ذلک عمل الشیطان،کان ینخسھا بیدہ ، فاذا رقاھا کف عنھا،انما کان یکفیک أن تقولی کم کان رسول اﷲاقول:’’أذھب البأس رب الناس… ‘‘الخ۔ فدل ھذا الحدیث صراحۃ علی أن الرقیۃ الممنوعۃ فی الحدیث انما ھی رقیۃ أھل الشرک التی یستمدون فیھا بالشیاطین وغیرھا۔أما الرقیۃ التی لا شرک فیھا فانھا مباحۃ،و قد ثبتت عن النبیﷺ بأحادیث کثیرۃ ، وکذلک الحال فی التمائم،فانھا جمع تمیمۃ ، وکانت خرزات کانت العرب تعلّقھا علی أولادھم ، یزعمون أنھا مؤثرۃ بذاتھاقال الشوکانی:و ھو یشرح حدیث أبی داؤد فی نیل الأوطار۸/۱۷۷’’جعل ھذہ الثلاثۃ من الشرک لاعتقادھم أن ذلک یؤثر بنفسہ و قال ابن عابدین فی ردالمحتار ۶:۳۶۳، وفي الشلبي عن ابن الأثير التمائم جمع تميمة وهي خرزات كانت العرب تعلقها على أولادهم يتقون بها العين في زعمهم فأبطلها الإسلام۔۔۔۔لأنھم یعتقدون أنھا تمام الدواءو لشفاء م بل جعلوھا شرکا لأنھم أرادوا بھ دفع المقادیرالمکتوبۃ علیھم و طلبوا دفع الأذی من غیر اللہ تعالی الذی ھو دافعہ۔فتبین بھذاأن التمائم المحرمۃ لا علاقۃ لھا بالتعاویذ المکتوبۃ المشت ملۃ علی آیات ،من القرآن أو شیئ من الذکر فإنھامباحۃ عندجماھیرفقھاء الأمۃ بل استحبھابعض العلماء إذا کانت بأذکار مأثورۃ کما نقل عنھم الشوکانی فی النیل ، واللہ اعلم۔

فتاوی محمودیة: (100/17- 101- 104، ط: ادارۃ الفاروق)

احسن الفتاوی: (256/8، ط: سعید)

خیرالفتاوی: (350/2، ط: مکتبة امدادیة)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 1982 Mar 03, 2021
taweez par ujrat lene ka hukum , ruling on charging wages for them

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Prohibited & Lawful Things

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.