سوال:
السلام علیکم !
کیا کسی ہندو کو اپنے گھر کھانے پر مدعو کیا جا سکتا ہے؟
مزید یہ فرمائیں کہ کیا ان کے ساتھ ایک ہی برتن میں کھانا کھا سکتے ہیں، جیسا کہ عربوں میں یہ لوگ ایک بڑے برتن میں سب ایک ساتھ کھاتے ہیں؟
جواب: کبھی کبھار ہندو کو اپنے گھر میں دعوت میں بلانے کی گنجائش ہے، لیکن اس کو معمول نہیں بنانا چاہیے، کیونکہ ان کے ساتھ دلی محبت اور دوستی سے قرآن و حدیث میں ممانعت آئی ہے۔
ولا بأس بضیافۃ الذمی وان لم یکن بینہما ال معرفۃ کذا فی الملتقط، وفی التفاریق لا بأس بان یضیف کافرا لقرابۃ اولحاجۃ کذافی التمرتاشی
(فتاوی ہندیہ ص۵/۳۷۵، الباب الرابع عشر فی اہل الذمۃ، کتاب الکراہیۃ، مطبوعہ کوئٹہ)
ہندو کے ہاتھ اور منہ پر ظاہری نجاست نہ لگی ہو، کھانا حلال اور برتن پاک ہو تو غیرمسلم کے ساتھ ایک برتن میں کھانا کھانے میں کوئی حرج نہیں، لیکن اس پر مداومت اختیار کرنا، یعنی اس کی عادت بنا لینا درست نہیں ہے، اور اگر ان کے ساتھ اختلاط سے برے اثرات کا اندیشہ ہو تو پھر ایسے غیر مسلموں سے میل جول رکھنے اور ان کے ساتھ کھانے پینے سے احتیاط کرنا لازم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الھندیة: (347/5، ط: دار الفکر)
قال محمد - رحمه الله تعالى - ويكره الأكل والشرب في أواني المشركين قبل الغسل ومع هذا لو أكل أو شرب فيها قبل الغسل جاز ولا يكون آكلا ولا شاربا حراما وهذا إذا لم يعلم بنجاسة الأواني فأما إذا علم فأنه لا يجوز أن يشرب ويأكل منها قبل الغسل ولو شرب أو أكل كان شاربا وآكلا حراما وهو نظير سؤر الدجاجة إذا علم أنه كان على منقارها نجاسة فإنه لا يجوز التوضؤ به والصلاة في سراويلهم نظير الأكل والشرب من أوانيهم إن علم أن سراويلهم نجسة لا تجوز الصلاة فيها وإن لم يعلم تكره الصلاة فيها ولو صلى يجوز ولا بأس بطعام اليهود والنصارى كله من الذبائح وغيرها ويستوي الجواب بين أن يكون اليهود والنصارى من أهل الحرب أو من غير أهل الحرب وكذا يستوي أن يكون اليهود والنصارى من بني إسرائيل أو من غيرهم كنصارى العرب ولا بأس بطعام المجوس كله إلا الذبيحة، فإن ذبيحتهم حرام ولم يذكر محمد - رحمه الله تعالى - الأكل مع المجوسي ومع غيره من أهل الشرك أنه هل يحل أم لا وحكي عن الحاكم الإمام عبد الرحمن الكاتب أنه إن ابتلي به المسلم مرة أو مرتين فلا بأس به وأما الدوام عليه فيكره كذا في المحيط....ولا بأس بضيافة الذمي وإن لم يكن بينهما إلا معرفة كذا في الملتقط.
وفي التفاريق لا بأس بأن يضيف كافرا لقرابة أو لحاجة كذا في التمرتاشي.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی