سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! کیا عورت قبرستان جا سکتی ہے؟
جواب: عام حالات میں عورتوں کے لئے قبرستان جانا شرعاً ممنوع ہے، کیونکہ حضور اکرم ﷺنے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے ،البتہ اگر کوئی عورت مندرجہ ذیل شرائط کا لحاظ رکھتے ہوئے قبرستان جائے، تو اس کی شریعت مطہرہ نےگنجائش دی ہے، وہ شرائط یہ ہیں:
1۔ جانے والی عورت جوان نہ ہو بوڑھی یا عمر رسیدہ ہو ۔
2۔ پردے کا مکمل اہتمام کر کے جائے۔
3۔ فتنہ کا اندیشہ نہ ہو۔
4۔ قبرستان جاکر جزع فزع نہ کرے۔
5۔ قبرستان جا کر خلافِ شرع کام مثلاً قبروں پر پھول چڑھانا،چادر چڑھانا ،صاحبِ قبر سے مانگنا اور بدعات کا ارتکاب نہ کرے۔
6۔ قبرستان جانے کی عادت نہ بنائے۔
ان شرائط کی پابندی کے ساتھ اگر کوئی عورت جائے تو اس کی گنجائش ہے ،تاہم فسادِ زمانہ کی وجہ سے نہ جانا بہتر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن الترمذي: (باب ما جاء في کراھیة زیارۃ القبور للنساء)
عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لعن زوّارات القبور۔
قال أبو عیسیٰ: ہٰذا حدیث حسن صحیح۔
وقد راٰی بعض أہل العلم أن ہٰذا کان قبل أن یرخص النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم في زیارۃ القبور، فلما رخّص دخل في رخصتہ الرجال والنساء، وقال بعضہم: إنما کرہ زیارۃ القبور في النساء لقلۃ صبرہن وکثرۃ جزعہن۔
عمدۃ القاری: (باب زیارۃ القبور، 70/8، ط: بیروت)
وحاصل الکلام من ہٰذا کلہ أن زیارۃ القبور مکروہۃ للنساء؛ بل حرام في ہٰذا الزمان، ولا سیما نساء مصر؛ لأن خروجہن علی وجہ الفساد والفتنۃ
رد المحتار: (مطلب في زیارۃ القبور، 242/2، ط: سعید)
قولہ (ولو للنساء) وقیل تحرم علیہن۔ والأصح أن الرخصۃ ثابتۃ لہن بحر، وجزم في شرح المنیۃ بالکراہۃ لما مر في اتباعہن الجنازۃ، وقال الخیر الرملي: إن کان ذلک لتجدید الحزن والبکاء والندب علی ما جرت بہ عادتہن فلا تجوز، وعلیہ حمل حدیث ’’لعن اﷲ زائرات القبور‘‘ وإن کان للاعتبار والترحم من غیر بکاء، والتبرک بزیارۃ قبور الصالحین فلا بأس إذا کن عجائز، ویکرہ إذا کن شواب کحضور الجماعۃ في المساجد اٰھ وہو توفیق حسن۔
و فیه ایضا: (242/2)
والأصح أن الرخصۃ ثابتۃ لہن … وإن کان للاعتبار والترحم من غیر بکاء والتبرک بزیارۃ قبور الصالحین، فلا بأس إذا کن عجائز، ویکرہ إذا کن شواب کحضور الجماعۃ في المساجد، وہو توفیق حسن۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی