سوال:
مفتی صاحب! کیا یہ حدیث صحیح ہے، اگر صحیح ہے تو اس کی سند بتادیں: حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص چھپکلی کو پہلی مار میں مار ڈالے اس کو اتنا ثواب ہے اور جو دوسری مار میں مارے اس کو اتنا اتنا ثواب ہے لیکن پہلی بار سے کم اور جو تیسری بار میں مار ڈالے اس کو اتنا اتنا ثواب ہے لیکن دوسری بار سے کم۔
جواب: سوال میں ذکر کردہ حدیث ’’صحیح‘‘ہے،لہذا اس کو بیان کیا جاسکتا ہے۔ اس روایت کاترجمہ،تخریج اور اسنادی حیثیت مندرجہ ذیل ہے۔
ترجمہ:
حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص چھپکلی کو پہلی مار میں مار ڈالے اس کو اتنا ثواب ہے اور جو دوسری مار میں مارے اس کو اتنا اتنا ثواب ہے لیکن پہلی بار سے کم اور جو تیسری بار میں مار ڈالے اس کو اتنا اتنا ثواب ہے لیکن دوسری بار سے کم۔“(صحیح مسلم،حدیث نمبر: 2240، ط: دار إحياء التراث العربي)
تخريج الحديث:
1۔امام مسلم (م 261ھ)نے ’’صحیح لمسلم‘‘(4/1754،رقم الحدیث: 2240، ط: دار إحياء التراث العربي) میں ذکرکیا ہے۔
۲۔امام احمد بن حنبل (م 241ھ)نے ’’مسند احمد ‘‘(14/296،رقم الحديث: 8658،ط:مؤسسة الرسالة) میں ذکرکیا ہے۔
۳۔ امام ابن ماجہ (م 273ھ)نے’’ سنن ابن ماجۃ‘‘ (2/1076،رقم الحدیث: 3229، ط: دار احیاء الکتب العربیة) میں ذکرکیا ہے۔
4۔ امام ابو داؤد(م 275ھ) نے ’’ سنن أبی داؤد: (7/538،رقم الحدیث : 5263،ط:دارالرسالة العالمية میں ذکرکیا ہے۔
۵۔ امام ترمذی (م 279 ھ) نے ’’سنن الترمذی‘‘(4/76،رقم الحدیث: 1482، ط: شركة مصطفى البابي الحلبي) میں ذکرکیا ہے۔
6۔ امام بیہقی(م 458ھ) ’’السنن الکبریٰ‘‘ (2/378،رقم الحدیث: 3442، ط: دار الکتب العلمیة) میں ذکرکیا ہے۔
مذکورہ روایت کی اسنادی حیثیت:
مذکورہ روایت کےبارے میں امام ترمذی(م279 ھ) نے فرمایا:حدیثِ ابوھریرہ حسن صحیح ہے۔
تشریح :
واضح رہے کہ حدیث میں "وزغة" کی دو قسمیں ہیں: گرگٹ اورچھپکلی۔
حضور اکرم ﷺ نے گرگٹ اورچھپکلی کو مارنے کا حکم دیا ہے اور ان کا نام فاسق(شرارتی ) رکھا ہے اور فرمایا کہ جب نمرود نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا تو یہ (چھپکلی ) اس آگ کو بھڑکانے کے لئے اس میں پھونک مارتی تھی۔
یہ موذی جانور ہے ، انسان کو ہر ممکن ضرر پہنچانے کی کوشش کرتی ہے ، برتن میں تھوکتی ہے اور نمک میں رال ٹپکتی ہے، جس کی وجہ سے برص کی بیماری پیدا ہوتی ہے اور کچھ بس نہیں چلتا تو چھت وغیرہ پر چڑھ کر کھانے میں بیٹ کرتی ہے، اس وجہ سے آپ ﷺ نے اس کے مارنے کا حکم دیا ہے۔
اورحدیث میں پہلی مار میں مارنے کاحکم دیا گیا ہے ، تو یہ اس کو جلد مارنے کی ترغیب کے طور پر کہا گیا ہے اور ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بسا اوقات اگر پہلی بار میں چھوٹ جائے تو پھر ہاتھ نہیں آتی، اس لیے اس کو بھاگنے کا موقع دیے بغیر ہی مار دینا چاہیے۔
۲۔ اس حدیث شریف میں عددثواب ذکر نہیں کیا گیا ہے، جبکہ مسلم شریف کی ایک اور روایت میں پہلے وار سے مارنے والے کے لئے سو نیکیاں لکھے جانے کا ذکر ہے اور سنن أبی داؤد کی روایت میں ہے کہ پہلے وار میں مارنے والے کو ستر نیکیاں ملیں گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح مسلم: (رقم الحدیث: 2240، 1754/4، ط: دار إحياء التراث العربي)
عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من قتل وزغة في أول ضربة فله كذا وكذا حسنة، ومن قتلها في الضربة الثانية فله كذا وكذا حسنة، لدون الأولى، وإن قتلها في الضربة الثالثة فله كذا وكذا حسنة، لدون الثانية»۔
أخرجه المسلم في ’’صحيحه ‘‘ (4/1758) والترمذي في ’’سننه‘‘(4/76)( 1482) و ابن ماجة في’’سننه‘‘ (2/1076)(3229) و أبو داؤد في’’ سننه‘‘ (7/538)( 5263) في ’’ سننه الكبرى‘‘(2/378)(3442)( 3443) وأحمد في ’’مسنده‘‘(14/296)( 8658)
أودہ والترمذي في ’’سننه‘‘(4/76)( 1482) وقال:حديث أبي هريرة حديث حسن صحيح
صحيح البخاري: (رقم الحدیث: 3359، 141/4، ط: دار طوق ا لنجاة)
عن أم شريك رضي الله عنها، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، " أمر بقتل الوزغ، وقال: كان ينفخ على إبراهيم عليه السلام "»
الدر المنضود شرح سنن أبی داؤد: (656/6، ط: مکتبة الشیخ)
كذا في تحفة الألمعي: (418/4، ط: زمزم ببلشرز)
تحفة الأحوذي: (48/5، ط: دار الکتب العلمیة)
قال النووي سبب تكثير الثواب في قتله أول ضربة الحث على المبادرة بقتله والاعتناء به والحرص عليه فإنه لو فاته ربما انفلت وفات قتله والمقصود انتهاز الفرصة بالظفر على قتله
صحیح مسلم: (رقم الحدیث: 2240، 1758/4، ط: دار إحیاء التراث العربي)
عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم بمعنى حديث خالد، عن سهيل إلا جريرا وحده، فإن في حديثه «من قتل وزغا في أول ضربة كتبت له مائة حسنة، وفي الثانية دون ذلك، وفي الثالثة دون ذلك»
سنن أبی داؤد: (رقم الحدیث: 5264، 366/4، ط: المکتبة العصریة)
عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، أنه قال: «في أول ضربة سبعين حسنة
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی