عنوان: ہسپتال میں مریضوں کے لیے زکوۃ کی مد میں کٹوتی کا شرعی حکم(7065-No)

سوال: مفتی صاحب ! ایک صاحب استطاعت فیملی ہے، انہوں نے اپنی والدہ کے علاج کے لیے شوکت خانم اسپتال میں ڈسکاؤنٹ کی درخواست دائر کی ہوئی ہے، جبکہ شوکت خانم اسپتال زکوۃ، عطیات اور خیرات وغیرہ پر چلتا ہے۔
کیا اس صاحب استطاعت فیملی کا ڈسکاؤنٹ مانگنا ٹھیک ہے؟

جواب: واضح رہے کہ اگر بیمار عورت زکوۃ کی مستحق ہے تو اس کے لیے ہسپتال کی طرف سے زکوۃ کی مد میں رقم میں کمی کرنا درست ہے اور اس کے لیے قبول کرنا بھی جائز ہے، بشرطیکہ ہسپتال کی انتظامیہ کی طرف سے زکوۃ کی ادائیگی کے درست ہونے کے لیے زکوۃ کے تمام شرعی احکام، مثلا : تملیک اور وکالت وغیرہ کو مد نظر رکھا گیا ہو۔
لیکن اگر وہ بیمار عورت زکوۃ کی مستحق نہیں ہے تو اس کے لیے زکوۃ کی مد میں رقم میں کمی کرنا جائز نہیں ہے، اور عورت کے لیے بھی اسے قبول کرنا جائز نہیں ہے، البتہ اگر ہسپتال کی طرف سے یہ کٹوتی نفلی صدقہ کی مد میں ہو، تو یہ کٹوتی بیمار عورت کے لیے لینا جائز ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (التوبہ، الآیۃ: 60)
إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمo

تفسیر القرطبی: (171/8، ط: دار الکتب المصریة)
الْخَامِسَةُ- وَقَدِ اخْتَلَفَ الْعُلَمَاءُ فِي حَدِّ الْفَقْرِ الَّذِي يَجُوزُ مَعَهُ الْأَخْذُ- بَعْدَ إِجْمَاعِ أَكْثَرُ مَنْ يُحْفَظُ عَنْهُ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ- أَنَّ من له دارا وخادما لَا يَسْتَغْنِيَ عَنْهُمَا أَنَّ لَهُ أَنْ يَأْخُذَ مِنَ الزَّكَاةِ، وَلِلْمُعْطِي أَنْ يُعْطِيَهُ.
فَاعْتَبَرَ النِّصَابَ لِقَوْلِهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ: (أُمِرْتُ أَنْ آخُذَ الصَّدَقَةَ من أغنيائكم وارد ها فِي فُقَرَائِكُمْ). وَهَذَا وَاضِحٌ، وَرَوَاهُ الْمُغِيرَةُ عَنْ مالك.

الدر المختار مع رد المحتار: (347/2، ط: دار الفکر)
(و) لا إلى (غني) يملك قدر نصاب فارغ عن حاجته الأصلية من أي مال كان ۔
(قوله: فارغ عن حاجته) قال في البدائع: قدر الحاجة هو ما ذكره الكرخي في مختصره فقال: لا بأس أن يعطي من الزكاة من له مسكن، وما يتأثث به في منزله وخادم وفرس وسلاح وثياب البدن وكتب العلم إن كان من أهله، فإن كان له فضل عن ذلك تبلغ قيمته مائتي درهم حرم عليه أخذ الصدقة، لما روي عن الحسن البصري قالكانوا يعني: الصحابة يعطون من الزكاة لمن يملك عشرة آلاف درهم من السلاح والفرس والدار والخدم، وهذا؛ لأن هذه الأشياء من الحوائج اللازمة التي لا بد للإنسان منها.

الدر المختار: (344/2، ط: دار الفکر)
ويشترط أن يكون الصرف (تمليكا) لا إباحة كما مر (لا) يصرف (إلى بناء) نحو (مسجد و) لا إلى (كفن ميت وقضاء دينه)۔

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 425 Mar 15, 2021
hospital mai mareezon kay liye zakat ki mad mai katooti ka shar'ee hukum, Shariah Ruling on Deduction of Zakat for Hospital Patients

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Zakat-o-Sadqat

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.