سوال:
السلام عليكم، مفتی صاحب ! ہمارے ملک موریشس میں لوگ اپنی زکوة مساجد میں جمع کرواتے ہیں اور پھر مسجد والے مستحقین تک رقم پہنچاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ مسجد کو اپنی زکوة کی رقم دینے سے زکوة کی ادائیگی ہو جائے گی یا مستحق کے ہاتھ میں پہنچنے سے زکوة کی ادائیگی ہو گی؟
جواب: مذکورہ صورت میں مسجد والے آپ کی طرف سے مستحقین کو زکوة دینے کے وکیل ہیں٬ جب وہ آپ کی طرف سے کسی مستحق زکوۃ کو مالک اور قابض بناکر آپ کے پیسے دیدیں گے٬ اس وقت آپ کی زکوۃ ادا ہوگی٬ اس سے پہلے آپ کی رقم ان کے پاس امانت رہے گی٬ البتہ اگر انہوں نے پہلے سے ہی مستحقین زکوۃ سے زکوۃ وصول کرنے وکالت لے رکھی ہو٬ تو پھر وہ مستحقین کے وکیل ہونگے٬ ایسی صورت میں جیسے ہی آپ ان کو زکوۃ دیدیں گے٬ تو ان کے وصول کرتے ہی وہ رقم مستحقین کی ملکیت میں چلی جائے گی٬ اور اسی وقت آپ کی زکوۃ ادا ہوجائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (التوبہ، الآیۃ: 60)
"اِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسٰکِیْنِ وَالْعَامِلِیْنَ عَلَیْھَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُھُمْ وَفِی الرِّقَابِ وَالغَارِمِیْنَ وَفِی سَبِیْلِ اﷲِ وَابْنِ السَّبِیِلِ فَرِیْضَۃً مِنَ اﷲِ وَاﷲُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ o
صحیح البخاری: (باب وجوب الزکوة، رقم الحدیث: 1395)
"عن ابن عباس ؓ قال قال رسول اﷲ ﷺ .... ..’’ان ﷲ قد افترض علیھم صدقۃ تؤخذ من اغنیائھم وترد علی فقرائھم۔‘‘
الدر المختار مع رد المحتار: (344/2، ط: دار الفکر)
" ویشترط ان یکون الصرف (تملیکا) لا اباحۃ کمامر (لا) یصرف (الی بناء) نحو (مسجد)
لعدم صحۃ التملیک منہ"
الفتاوی الھندیة: (190/1، ط: دار الفکر)
"اذا دفع الزکوٰۃ الی الفقیر لایتم الدفع مالم یقبضھا أو یقبضھا للفقیر من لہ ولایۃ علیہ نحو الاب"
رد المحتار: (345/2، ط: دار الفکر)
"(قولہ فیجوز لو بأمرہ) أی یجوز عن الزکوٰۃ علی أنہ تملیک منہ… لأنہ لابدمن کونہ تملیکا وھو لایقع عند أمرہ بل عند اداء المامور وقبض النائب"
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی