سوال:
محترم مفتی صاحبان! السلام علیکم، مزاج گرامی، اُمید ہے آپ سب حضرات خیریت سے ہونگے۔ برائے مہربانی مندرجہ ذیل پراپرٹی کی زکوٰۃ کے بارے میں رہنمائی فرمائیں۔
(الف) ۲۹ مرلہ پلاٹ (لاھور ۲۰۰۹): گھر بنانے کی نیت سے خریدا، یکمشت قیمت ادا کی، نقشہ بنوایا، لیکن پیسے میسر نہ ہونے کی وجہ سے تعمیر نہ کر سکا، ارادہ ہٹا دیا، اب بچوں کیلئے ترکہ کی نیت سے چھوڑ دیا۔
دفتر کی سوسائٹی کی طرف سے اسلام آباد میں تین (۰۳) عدد پلاٹ قسطوں پر مِلے جو درج ذیل ہیں (اور ترکہ کی نیت سے رکھ لئے):
(ب) ۱یک کنال پلاٹ: زمین کی قیمت اور ترقیاتی اخراجات دونوں ادا کر دئیے۔ پلاٹ کا possession ہو سکتا تھا لہذا اِس پر گھر بنانا شروع کر دیا۔
(ج) دو کنال پلاٹ: یہ پلاٹ کی ایک فائل ہے اور اِس کے لئے ابھی area developed نہیں ہے۔ لہذا possession نہیں بلکہ زمین کی مکمل قیمت ادا کی (۱۰ لاکھ ۸ ہزار)۔ ترقیاتی اخراجات ۱۷ لاکھ ابھی ادا کرنے ہیں۔
مذکورہ گھر (پلاٹ “ب” پر) شروع کرنے سے پہلے اِس والے پلاٹ کو بیچنے لگایا تاکہ وصول ہونے والی رقم کو گھر کی تعمیر پر لگا سکوں، پر پلاٹ بِکا نہیں۔ پچھلے سال زکوٰۃ اِس پلاٹ کی قیمتِ خرید پر ادا کی۔
(د) دو کنال پلاٹ : اِس پلاٹ کا بھی area developed نہیں ہے، یہ بھی ایک فائل ہے، اِسکی زمیں کی کُل قیمت ادا (۱۴ لاکھ ۴۰ ہزار) کی، جبکہ ترقیاتی اخراجات (۱۷ لاکھ) ادا نہیں کئے اور اِس پلاٹ کی possession ابھی نہیں مِلی۔ ترکہ کی نیت سے اِس پلاٹ کو بچوں کے لئے چھوڑا ہوا ہے۔
(ہ) ایک کنال پلاٹ: یہ ریٹائرمنٹ پر مِلے گا، قسطوان میں ۳۰ لاکھ ادا کئے ہیں، بقیہ ۴۵-۵۰ لاکھ ادا کرنا باقی ہیں۔ زمین پر عدالتی جھگڑوں کی وجہ سے گورنمنٹ اِس زمین کو develop نہیں کر سکی، اِسی لئے اِس پلاٹ کی بھی possession نہیں مِلی ابھی اور یہ بھی ایک فائل ہے۔ اگر یہ پلاٹ مِل گیا تو بچؤں کے لئے ترکہ میں چھوڑ جاوں گا۔
۔۔
اکتوبر ۲۰۲۰ میں ایک کنال والے پلاٹ اِسلام آباد (ب) پر اپنے پاس موجود ۵۰ لاکھ سے تعمیر شروع کی، ۵۲ لاکھ قرض بھی لیا بچوں سے، تعمیر ابھی مکمل نہیں ہو سکی، دو کنال والا پلاٹ (ج) فروخت نہیں ہو سکا، لہذا لاہور والا پلاٹ (الف) بھی چھ ماہ سے بِکنے پر لگایا ہوا ہےجو ابھی تک فروخت نہیں ہوا۔
اس تمام تفصیل کے بعد چند سوالات کے جوابات مطلوب ہیں:
1) ۲۹ مرلے والے پلاٹ (الف) پر اب زکوٰۃ واجب الادہ ہو گی اِس رمضان میں یا نہیں، یا بِکنے پر ادا کروں؟
2) ایک کنال والی پلاٹ (ب) پر غالباً زکوٰۃ نہیں بنتی۔
3) دو کنال والا پلاٹ (ج) جو کہ ایک فائل ہے اور بِکنے پر لگایا ہوا ہے ، اُس پر زکوٰۃ ہو گی کہ نہیں (کیونکہ اِسکی possession میرے پاس نہیں)، اگر زکوٰۃ ہو گی تو کِس قیمت پر؟
4) دو کنال والا پلاٹ (د) جو بچوں کے لئے ترکہ کی نیت سے چھوڑا ہوا ہے، ایک فائل ہے اور اِسکی possession بھی میرے پاس نہیں، اور نہ ہی پُوری قیمت ادا کی ہوئی ہے، اِس پر زکوٰۃ غالباً نہیں ہو گی؟
5)میرے پاس اندازاً ۵ لاکھ ہیں جو کنسٹرکشن مٹیرئیل پر خرچ رہا ہوں تعمیر کے دوران۔ گھر بنانے والے شخص کو جو اڈوانس دیا تھا اُس میں سے اُس کے پاس اندازاً ۴ لاکھ موجود ہیں؛ اِن پیسوں پر زکوٰۃ ادائیگی ہو گی یا نہیں؟
6) ۱۴۰-۱۵۰ گرام زیورات بھی ہیں جِن پر ہمیشہ سے زکوٰۃ ادا کر رہا ہوں۔
جواب: واضح رہے کہ اگر مکان، زمین یا پلاٹ خالص تجارت کی نیت سے خریدا ہو، تو مال تجارت ہونے کی وجہ سے اس کی مالیت پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے۔
صورت مسئولہ میں اگر آپ نے کوئی بھی پلاٹ تجارت کی نیت سے نہیں خریدا ہے، تو ان کی مالیت پر کوئی زکوٰۃ واجب نہیں ہے، البتہ اگر قرض کی رقم منہا کرنے کے بعد زکوٰۃ کی تاریخ والے دن آپ کی ملکیت میں ساڑھے باون تولے چاندی کی مالیت کے بقدر ضرورت سے زائد جتنی رقم، سونا اور چاندی ہو، تو اس پر ڈھائی فیصد کے حساب سے زکوٰۃ ادا کرنا واجب ہوگی، اور جو رقم آپ نے گھر بنانے والے کو ایڈوانس کے طور پر ملکیتاً دے دی ہے، اس کی زکوٰۃ دینا آپ پر واجب نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (264/2، ط: سعید)
ولا في ثیاب البدن وأثاث المنزل ودور السکنی ونحوہا أي کثیاب البدن الغیر المحتاج إلیہا وکالحوانیت والعقارات۔
بدائع الصنائع: (کتاب الزکوۃ، 19/2، ط: دار الكتاب العربی)
فأما إذا كان له الصنفان جميعاً فإن لم يكن كل واحد منهما نصاباً بأن كان له عشرة مثاقيل ومائة درهم، فإنه يضم أحدهما إلى الآخر في حق تكميل النصاب عندنا... (ولنا) ما روي عن بكير بن عبد الله بن الأشج أنه قال: مضت السنة من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم بضم الذهب إلى الفضة والفضة إلى الذهب في إخراج الزكاة ؛ ولأنهما مالان متحدان في المعنى الذي تعلق به وجوب الزكاة فيهما وهو الإعداد للتجارة بأصل الخلقة والثمنية، فكانا في حكم الزكاة كجنس واحد ؛ ولهذا اتفق الواجب فيهما وهو ربع العشر على كل حال وإنما يتفق الواجب عند اتحاد المال.
وأما عند الاختلاف فيختلف الواجب وإذا اتحد المالان معنىً فلايعتبر اختلاف الصورة كعروض التجارة، ولهذا يكمل نصاب كل واحد منهما بعروض التجارة ولايعتبر اختلاف الصورة، كما إذا كان له أقل من عشرين مثقالاً وأقل من مائتي درهم وله عروض للتجارة ونقد البلد في الدراهم والدنانير سواء، فإن شاء كمل به نصاب الذهب وإن شاء كمل به نصاب الفضة، وصار كالسود مع البيض، بخلاف السوائم؛ لأن الحكم هناك متعلق بالصورة والمعنى وهما مختلفان صورة ومعنى فتعذر تكميل نصاب أحدهما بالآخر۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی