عنوان: دکاندار سے کوئی چیز ادہار خرید کر کسی تیسرے شخص کو فروخت کرنا٬ پھر تیسرے شخص کا وہی چیز اسی دکاندار کو واپس فروخت کرنے کا حکم(7195-No)

سوال: السلام علیکم، مفتی صاحب ! میں نے دکان دار سے AC خریدا، اب تک AC اسی دکان میں ہے، ابھی وہاں سے گھر نہیں لایا، اور کسی دوست کو قسطوں پر فروخت کیا، سب کچھ تحریری صورت میں ہوا۔
میرے دوست نے اس دکاندار کو AC واپس کرکے
پیسے نقد لئے، اور مجھے لکھت پڑھت کے مطابق قسطیں دیتا رہا ہے۔
یہ AC کا دکاندار سے لینا اور اس کو واپس کرنا سب صرف اس لئے ہے کہ ھمارا یہ معاملہ سود میں نہ آئے، کیا ایسا کرنا ٹھیک ہے؟

جواب: مذکورہ معاملہ فقہی اصطلاح میں "تورق" کہلاتا ہے٬ جس کا حکم یہ ہے کہ اگر تیسرا شخص اصل مالک کا نمائندہ نہ ہو٬ اور اصل مالک کو دوبارہ بیچنا٬ پہلے سے مشروط یا معروف نہ ہو٬ تو پھر اس کی گنجائش ہے٬ لیکن سوال سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سارا معاملہ پہلے سے باقاعدہ طے کرکے ہی کیا جاتا ہے٬ جس کی رو سے تیسرا شخص اصل مالک کو واپس AC فروخت کرنے کا پابند ہے٬ نیز مذکورہ صورت میں خریدار AC پر قبضہ نہیں کرتا٬ جبکہ (قبضہ حقیقی یا حکمی) سے پہلے کسی ایسی چیز کو آگے فروخت کرنا شرعا درست نہیں ہے٬ لہذا مذکورہ بالا دو وجوہات کی بناء پر یہ معاملہ جائز نہیں ہے٬ اس سے اجتناب لازم ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

رد المحتار: (273/5، ط: دار الفکر)
’’(قَوْلُهُ: فِي بَيْعِ الْعِينَةِ) اخْتَلَفَ الْمَشَايِخُ فِي تَفْسِيرِ الْعِينَةِ الَّتِي وَرَدَ النَّهْيُ عَنْهَا. قَالَ بَعْضُهُمْ: تَفْسِيرُهَا أَنْ يَأْتِيَ الرَّجُلُ الْمُحْتَاجُ إلَى آخَرَ وَيَسْتَقْرِضَهُ عَشَرَةَ دَرَاهِمَ وَلَايَرْغَبُ الْمُقْرِضُ فِي الْإِقْرَاضِ طَمَعًا فِي فَضْلٍ لَايَنَالُهُ بِالْقَرْضِ، فَيَقُولُ: لَا أُقْرِضُك، وَلَكِنْ أَبِيعُك هَذَا الثَّوْبَ إنْ شِئْت بِاثْنَيْ عَشَرَ دِرْهَمًا، وَقِيمَتُهُ فِي السُّوقِ عَشَرَةٌ، لِيَبِيعَهُ فِي السُّوقِ بِعَشَرَةٍ، فَيَرْضَى بِهِ الْمُسْتَقْرِضُ فَيَبِيعُهُ كَذَلِكَ، فَيَحْصُلُ لِرَبِّ الثَّوْبِ دِرْهَمًا، وَلِلْمُشْتَرِي قَرْضُ عَشَرَةٍ. وَقَالَ بَعْضُهُمْ: هِيَ أَنْ يُدْخِلَا بَيْنَهُمَا ثَالِثًا، فَيَبِيعُ الْمُقْرِضُ ثَوْبَهُ مِنْ الْمُسْتَقْرِضِ بِاثْنَيْ عَشَرَ دِرْهَمًا، وَيُسْلِمُهُ إلَيْهِ ثُمَّ يَبِيعُهُ الْمُسْتَقْرِضُ مِنْ الثَّالِثِ بِعَشَرَةٍ وَيُسْلِمُهُ إلَيْهِ، ثُمَّ يَبِيعُهُ الثَّالِثُ مِنْ صَاحِبِهِ وَهُوَ الْمُقْرِضُ بِعَشَرَةٍ وَيُسْلِمُهُ إلَيْهِ، وَيَأْخُذُ مِنْهُ الْعَشَرَةَ وَيَدْفَعُهَا لِلْمُسْتَقْرِضِ فَيَحْصُلَ لِلْمُسْتَقْرِضِ عَشَرَةٌ وَلِصَاحِبِ الثَّوْبِ عَلَيْهِ اثْنَا عَشَرَ دِرْهَمًا، كَذَا فِي الْمُحِيطِ، ... وَقَالَ مُحَمَّدٌ: هَذَا الْبَيْعُ فِي قَلْبِي كَأَمْثَالِ الْجِبَالِ ذَمِيمٌ اخْتَرَعَهُ أَكَلَةُ الرِّبَا. وَقَالَ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ: «إذَا تَبَايَعْتُمْ بِالْعِينَةِ وَاتَّبَعْتُمْ أَذْنَابَ الْبَقَرِ ذَلَلْتُمْ وَظَهَرَ عَلَيْكُمْ عَدُوُّكُمْ»‘‘

الفقه الإسلامي و أدلته: (بیع العینة، 5/ 3455، ط: دار الفکر)
"اختلف العلماء في الحكم على العقد الثاني، مع أن قصد التعامل بالربا واضح من البائع والمشتري.
قال أبو حنيفة: هو عقد فاسد إن خلا من توسط شخص ثالث بين المالك المقرض والمشتري المقترض، كما في المثال، إلا أنه يلاحظ أن أبا حنيفة خالف أصله السابق الذكر الذي يقتضي القول بصحة هذا العقد وذلك استحساناً بنص الحديث الذي سيأتي في قصة زيد بن أرقم، ولأن الثمن إذا لم يستوف لم يتم البيع الأول، فيصير البيع الثاني مبنياً عليه، فليس للبائع الأول أن يشتري شيئاً ممن لم يتملكه بعد، فيكون البيع الثاني فاسداً.
وقال أبو يوسف: هذا البيع صحيح بلا كراهة. وقال محمد: إنه صحيح مع الكراهة، حتى إنه قال: «هذا البيع في قلبي كأمثال الجبال ذميم، اخترعه أكلة الربا» ......وقد يوسط المتعاقدان بينهما شخصاً ثالثاً يشتري العين بثمن حال من مريد الاقتراض، بعد أن اشتراها هذا من مالكها المقرض، ثم يبيعها للمالك الأول بالثمن الذي اشترى به، فيكون الفرق رباً له"

فقہ البیوع: (554/1- 555، ط: مکتبہ معارف القران)
"اما الحنفية فقد ذکروا التورق باسم العینة ثم منہم من ذھب الی کراہتہ٬ مثل الامام محمد رحمہ اللہ تعالی........لکن جواز التورق مشروط بان لاتکون ہناك ملابسات اخری تفسد البیع٬ مثل ان یشترط المشتری علی البائع الاول ان یبیع السلعة فی السوق نیابة عنہ٬ فان هذا الشرط یفسد البیع"

کذا فی تبویب فتاوی دار العلوم کراتشي: رقم الفتوی: 23/2075

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 923 Mar 29, 2021
dukandaar say koi cheez udhar khareed kar kisi teesray shakhs ko farookht karna phir teesray shakhs ka wohi cheez usi dukandar ko wapis farookht karne ka hukum, Buying something on credit from a shopkeeper and selling it to a third person, then ruling / ordering the third person to sell the same thing back to the same shopkeeper.

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Business & Financial

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.