سوال:
حضرت ! کیا نفلی صدقہ جو غریبوں پر خرچ کرنے کی نیت سے اکٹھا کیا گیا ہو، کسی قریبی رشتہ دار کو گھر کی تعمیر کی مد میں دے سکتے ہیں، جبکہ ان کی ملکیت میں پہلے اپنا کوئی گھر نہ ہو؟
جواب: واضح رہے کہ وکیل اپنی ذمہ داری کی ادائیگی میں مؤکل کے احکامات کا پابند ہوتا ہے، اگر مؤکل کی طرف سے صدقہ مخصوص غرباء کو دینے کا حکم تھا، اور ان غرباء میں آپ کا رشتہ دار شامل نہیں تھا، تو ایسی صورت میں آپ کے لئے وہ صدقہ اپنے رشتہ دار کو دینا جائز نہیں ہے، البتہ اگر مؤکل نے مطلقاً غرباء کہا تھا، تو ایسی صورت میں اگر آپ کے وہ رشتہ دار غریب ہیں، تو آپ ان کو صدقہ دے سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (کتاب الزکوٰۃ، 269/2، ط: سعید)
"ولو خلط زكاة موكليه ضمن وكان متبرعًا إلا إذا وكله الفقراء وللوكيل أن يدفع لولده الفقير وزوجته لا لنفسه إلا إذا قال: ربها ضعها حيث شئت.
(قوله: إذا وكله الفقراء)؛ لأنه كلما قبض شيئًا ملكوه وصار خالطًا مالهم بعضه ببعض ووقع زكاة عن الدافع".
الموسوعة الفقہیة الکویتیة: (ضمان الوكيل ما تحت يده من أموال، 87/45، ط: الوزارة)
"الوكيل أثناء قيامه بتنفيذ الوكالة مقيد بما يقضي به الشرع من عدم الإضرار بالموكل؛ لقول رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا ضرر ولا ضرار، ومقيد بما يأمره به موكله، كما أنه مقيد بما يقضي به العرف إذا كانت الوكالة مطلقة عن القيود، فإذا خالف كان متعديًا ووجب الضمان".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی