سوال:
مفتی صاحب ! انویسٹر بروکر کو یہ کہے کہ فلاں گھر مجھ کو ایک لاکھ میں دلوا دو، میں تمہیں ایک لاکھ دونگا۔ تو کیا اس طرح معاملہ کرنا درست ہے؟
جواب: پراپرٹی خرید کر دینے کے عوض خریدار کے ساتھ٬ باہمی رضامندی سے طے شدہ کمیشن وصول کرنے کی مذکورہ صورت شرعا درست ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
شرح المجلۃ: (المادۃ: 1467)
" اذا اشترطت الاجرۃ فی الوکالۃ واوفاہا الوکیل یستحقہا"
الفقہ الاسلامی و ادلتہ: (2997/4، ط: دار الفکر)
"تصح الوکالۃ باجر وبغیر اجر لان النبیﷺ کان یبعث عمالہ لقبض الصدقات ویجعل لہم عمولۃ"
الفتاوی الھندیۃ: (کتاب الاجارۃ، الباب السادس عشر فی مسائل الشیوع، 45/4- 51)
"وفی الدلال والسمساریجب أجرالمثل…دفع ثوبًاالیہ وقال بعہ بعشرۃ فمازادفھوبینی وبینک…ولوباعہ باثنی عشرأوأکثر فلہٗ أجرمثل عملہٖ وعلیہ الفتوٰی"
رد المحتار: (مطلب فی أُجرۃ الدلال، 44/5)
"وفی الحاوی سئل محمد بن سلمۃ عن اجرۃ السمسار فقال ارجو انہ لابأس بہ وان کان فی الاصل فاسداً لکثرۃ التعامل"
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی