سوال:
مفتی صاحب !ایک آدمی نے اپنی زمین مسجد کی تعمیر کرنے کی نیت سے وقف کی اور اس جگہ پر مسجد کی تعمیر کی غرض سے بنیادیں بھی بن گئی ہیں، لیکن ابھی تک اس جگہ پر کوئی نماز نہیں پڑھی گئی ہے، اب اس آدمی کے چچا زاد بھائی بھی مسجد بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں، ان سب کی مشترکہ زمین اس پہلے والی جگہ سے چند فرلانگ کے فاصلے پر واقع ہے، وہ چاہتے ہیں کہ اب مسجد دوسری جگہ پر پہلے والی سے بڑے سائز کی بنائی جانی چاہئے، اس صورت میں پہلے والی جگہ کا کیا حکم ہے، جہاں پر باقاعدہ دعاءِخیر کرنے کے بعد مسجد کی تعمیر کا کام شروع کروایا گیا تھا؟
جواب: ہر وہ جگہ جسے اس کے مالک نے مسجد کیلئے وقف کردیا ہو٬ اس کے زبانی یا تحریری طور پر وقف کر دینے سے مسجد بن جاتی ہے٬ اور اس پر مسجد کے احکام جاری ہوتے ہیں٬ خواہ اس میں نماز پڑھی جائے یا نہیں۔
ایک دفعہ مسجد بن جانے کے بعد وہ جگہ وقف کرنے والی کی ملکیت سے نکل جاتی ہے٬ اب اسے مسجد کے علاوہ کسی اور مقصد کیلئے استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔
لہذا مذکورہ صورت میں مسجد کیلئے وقف کی گئی زمین کو مسجد بنانے میں ہی استعمال کرنا ضروری ہے٬ سوال میں ذکر کردہ عذر شرعا کوئی ایسا عذر نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے وہاں مسجد نہ بنائی جاسکے٬ باقی رشتہ داروں کو اسی مسجد کے قریب میں بلا ضرورت دوسری مسجد کیلئے جگہ وقف نہیں کرنی چاہئیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفتاوی الہندیة: (کتاب الوقف، 350/2، ط: رشیدیہ)
"وعندهما حبس العين على حكم ملك الله تعالى على وجه تعود منفعته إلى العباد، فيلزم ولا يباع ولا يوهب ولا يورث، كذا في الهداية. وفي العيون واليتيمة: إن الفتوى على قولهما، كذا في شرح أبي المكارم للنقاية"
و فیھا ایضا: (الباب الثانی فیما یجوز وقفہ، 362/2، ط: رشیدیہ)
"البقعة الموقوفة على جهة إذا بنى رجل فيها بناءً ووقفها على تلك الجهة يجوز بلا خلاف تبعاً لها، فإن وقفها على جهة أخرى اختلفوا في جوازه، والأصح أنه لا يجوز، كذا في الغياثية"
الاشباه و النظائر: (كتاب الوقف، 219/1)
"شرط الواقف يجب اتباعه لقولهم : شرط الواقف كنص الشارع أي : في وجوب العمل به"
فتاوی عثمانی: (236/1، ط: مکتبہ معارف القرآن)
واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی