سوال:
گزارش یہ ہے کہ مجھے پیشاب کرنے کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ ایک دو قطرے ابھی رہ گئے ہیں، اس خوف سے میں پیشاب والی جگہ پر اچھی طرح سے ٹشو پیپر لپیٹ لیتا ہوں، پھر وضو کرکے نماز ادا کرتا ہوں تو کیا اس طرح میری نماز ہوجاتی ہے؟ نیز یہ کہ اسی حالت میں کبھی کبھی نماز کی امامت بھی کرتا ہوں تو کیا اس طرح میرے پیچھے دوسروں کی نماز ہوجاتی ہے یا نہیں؟
جواب: پوچھی گئی صورت میں بہتر طریقہ یہ ہے کہ آپ نماز سے کافی دیر پہلے ہی پیشاب کر کے فارغ ہوجائیں، اور پیشاب سے فراغت کے بعد انڈرویئر پہن کر اس میں قطرے آنے تک ٹشو پیپر وغیرہ رکھ لیں، اور قطروں کے خارج ہونے تک انتظار کریں، قطرے نکلنے کے بعد ٹشوپیپر نکال کر پانی سے استنجا کر لیں اور وضو کرکے نماز پڑھ لیں۔
واضح رہے کہ اگر پیشاب کے قطرے ایک درہم (ہتهیلی کی گہرائی یعنی 5.94 مربع سینٹی میٹر) سے زائد لگ جائیں تو نماز سے پہلے اس جگہ کا پاک کرنا ضروری ہوگا، اگر اتنی مقدار پیشاب کے قطرے لگے ہوں تو ایسے کپڑوں میں نماز ادا نہیں ہوگی، اور اگر پیشاب کے قطرے ایک درہم کی مقدار یا اس سے کم لگے ہوں تو اس کے ساتھ نماز ہوجائے گی، مگر مکروہ ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن الدار قطنی: (باب قدر النجاسۃ التي تبطل الصلاۃ، رقم الحدیث: 1679)
عن أبی ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ عن النبي علیہ السلام قال: تعاد الصلاۃ من قدر الدراہم من الدم۔
رد المحتار: (339/1، ط: دار الفکر)
ویجب أي یفرض غسلہ إن جاوز المخرج نجس مائع، ویعتبر القدر المانع للصلاۃ فیما وراء موضع الاستنجاء؛ لأن ما علی المخرج ساقط شرعاً وإن کثر، ولہٰذا لا تکرہ الصلاۃ معہ والحاصل: أن ما جاوز المخرج إن زاد علی الدرہم في نفسہ یفترض غسلہ اتفاقاً۔
و فیہ ایضا: (327/1، ط: دار الفکر)
(وغسل طرف ثوب) أو بدن (أصابت نجاسة محلا منه ونسي) المحل (مطهر له وإن) وقع الغسل (بغير تحر) وهو المختار۔۔۔(وكذا يطهر محل نجاسة) أما عينها فلا تقبل الطهارة (مرئية) بعد جفاف كدم (بقلعها) أي: بزوال عينها وأثرها ولو بمرة أو بما فوق ثلاث في الأصح۔۔۔۔(و) يطهر محل (غيرها) أي: غير مرئية (بغلبة ظن غاسل) لو مكلفا وإلا فمستعمل (طهارة محلها) بلا عدد به يفتى۔۔۔(و) قدر (بتثليث جفاف) أي: انقطاع تقاطر (في غيره) أي: غير منعصر مما يتشرب النجاسة وإلا فبقلعها
الفتاوی الهندیة: (الباب الثالث فى شروط الصلوة، 58/1، ط: مكتبة رشيدية)
"النجاسة إن كانت غليظةً وهي أكثر من قدر الدرهم فغسلها فريضة والصلاة بها باطلة وإن كانت مقدار درهم فغسلها واجب والصلاة معها جائزة وإن كانت أقل من الدرهم فغسلها سنة وإن كانت خفيفة فإنها لا تمنع جواز الصلاة حتى تفحش. كذا في المضمرات."
المبسوط للسرخسی: (60/1)
"قلت: فَإِن أصَاب يَده بَوْل أَو دم أَو عذرة أَو خمر هَل ينْقض ذَلِك وضوءه؟ قَالَ: لَا وَلَكِن يغسل ذَلِك الْمَكَان الَّذِي أَصَابَهُ. قلت: فَإِن صلى بِهِ وَلم يغسلهُ؟ قَالَ: إِن كَانَ أَكثر من قدر الدِّرْهَم غسله وَأعَاد الصَّلَاة وَإِن كَانَ قدر الدِّرْهَم أَو أقل من قدر الدِّرْهَم لم يعد الصَّلَاة".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی