سوال:
مفتی صاحب ! میں جس ادارے میں جاب کرتا ہوں، وہاں ایک کرسٹن لڑکا ہے، اس کی شادی ہے، تو کیا کی اس دعوت کو قبول کرسکتے ہیں؟
جواب: غیر مسلموں کی ایسی دعوت جس میں کسی حرام چیز کی ملاوٹ نہ ہو، دعوت میں کوئی غیر شرعی رسومات اور طور طریقے نہ ہوں اور وہ دعوت ان کی کسی مذہبی رسم، شعار یا تہوار کی نہ ہو، تو اس کا قبول کرنا جائز ہے۔
صورت مسئولہ میں مذکورہ بالا شرائط کو مد نظر رکھتے ہوئے، اگر عیسائی دوست کی شادی کی دعوت میں جانے سے پہلے اس بات کا یقین ہو کہ وہاں کھانے میں کوئی حرام چیز نہیں ہوگی، مثلا: شراب، خنزیر وغیرہ، اور اس تقریب میں کوئی غیر شرعی رسومات بھی نہیں ہونگی، مثلا : ناچ گانا، مردوں اور عورتوں کا مخلوط اجتماع وغیرہ، تو ایسی دعوت کا قبول کرنا جائز ہے۔
واضح رہے کہ اس تقریب میں شرکت کی اجازت محض غیر مسلموں کے ساتھ رواداری اور خوش خلقی کی بنیاد پر ہے، کیونکہ غیر مسلوں کے ساتھ رواداری اور خوش خلقی کا معاملہ کرنا جائز ہے، لیکن ان کے ساتھ قلبی محبت اور دوستی کا تعلق رکھنا جائز نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرة، الآیۃ: 173)
إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ ....الخ
و قولہ تعالی: (الممتحنۃ، الآیۃ: 8)
لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَo
صحیح البخاری: (باب قبول الہدیۃ من المشرکین، رقم الحدیث: 2617)
عن أنس بن مالک : أن یہودیۃ أتت النبی صلی اﷲ علبہ وسلم بشاة مسمومۃ فأ کل منہا، فجیئ بہا، فقیل : ألانقتلہا، قال: لا،:فمازلت أعرفہا فی لہوات رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم”۔
الفتاوی التاتارخانیۃ: (167/18)
ولابأس بالذہاب إلی ضیفۃ أہل الذمہ۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی