سوال:
السلام علیکم، ایک عالم کی پانچ بیٹیاں ہیں، جب تک وہ والد صاحب کے ساتھ رہ رہا تھا تو والد صاحب اس کا تمام خرچہ برداشت کررہے تھے، لیکن اب اس عالم کا ایک مسجد میں امامت کا تقرر ہو گیا ہے، اب وہ والد صاحب سے الگ ہو گیا ہے، مسجد کی تنخواہ صرف دس ہزار روپے ہے، الگ ہونے کے بعد والد صاحب سے جتنا تعاون ہو سکتا ہے، وہ ہر مہینے کرتے ہیں، ان کل پیسوں کو ملا کر بھی مہینہ بھر اخراجات پورے نہیں ہوتے، جس کی وجہ سے ہر ماہ تھوڑی پریشانی بھی ہوتی ہے، ہر ماہ مزید پیسے ادھار لینا پڑتا ہے۔
اب یہ پو چھنا ہے کہ یہ امام زکوة اور صدقةالفطر کے پیسے لے سکتا ہے یا نہیں، جبکہ ان کے والد امیر آدمی ہیں؟
جواب: واضح رہے کہ بالغ اولاد اور باپ کی ملکیت الگ الگ شمار ہوتی ہے، اس لیے باپ کے صاحب نصاب ہونے سے بالغ بچے صاحب نصاب شمار نہیں ہوں گے ، لہذا صورت مسئولہ میں اگر امام صاحب صاحبِ نصاب اور سید نہ ہوں، تو ان کے لیے زکوۃ اور صدقۃ الفطر لینا جائز ہے۔
نوٹ:نیز امام صاحب اگر مقروض اور مستحق زکوة ہوں تو امامت کے معاوضہ کے بغیر ان کو زکوة دی جاسکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (باب المصرف، 249/2، ط: سعید)
(و) ا إلى (طفله) بخلاف ولده الكبير وأبيه وامرأته
الفقراء وطفل الغنية، فيجوز لانتفاء المانع.
قوله: (ولا إلى طفله) أي: الغنى فيصرف إلى البالغ ولوذکر ا صحيحا، قهستانی، فأفاد أن المراد بالطفل
غير البالغ، ذكراكان أو أنثى في عيال.
الفتاوی الھندیۃ: (الباب السابع في المصارف، 187/1، ط: دار الفکر)
(منها الفقير) وهو من له أدنى شيء وهو ما دون النصاب أو قدر نصاب غير نام وهو مستغرق في الحاجة فلا يخرجه عن الفقير ملك نصب كثيرة غير نامية إذا كانت مستغرقة بالحاجة كذا في فتح القدير. التصدق على الفقير العالم أفضل من التصدق على الجاهل كذا في الزاهدي. (ومنها المسكين) وهو من لا شيء له فيحتاج إلى المسألة لقوته أو ما يواري بدنه ويحل له ذلك بخلاف الأول حيث لا تحل المسألة له فإنها لا تحل لمن يملك قوت يومه بعد سترة بدنه كذا في فتح القدير.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی