سوال:
مفتی صاحب ! اگر دو پلاٹ رہائش کی نیت سے خریدے جائیں، اور ان میں سے ایک کو فروخت کرکے دوسرے پلاٹ کو تعمیر کرنے کی نیت ہو، یا دونوں کو فروخت کر کے کوئی اور رہائش کے لیے مکان لینے کی نیت ہو، تو ایسی صورت میں ان دونوں پلاٹوں پر زکوۃ کا کیا حکم ہوگا؟
جواب: واضح رہے کہ جو بھی پلاٹ فروخت کرنے کی نیت سے خریدا جائے، وہ بہرصورت مالِ تجارت میں شمار ہوتا ہے اور یہی تجارت کی حقیقت ہے کہ کسی مال کو فروخت کرنے کی نیت سے خریدا جائے، پھر چاہے اس سے رہائشی مقصد حاصل کیا جائے یا کاروباری، لہذا صورت مسئولہ میں جس پلاٹ کو فروخت کرنے کی نیت سے خریدا گیا ہے، اس پر زکوٰۃ واجب ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفتاوى الھندية: (کتاب الزکاة، 175/1، ط: رشیدیة)
"الزكاة واجبة في عروض التجارة كائنةً ما كانت إذا بلغت قيمتها نصاباً من الورق والذهب، كذا في الهداية. ويقوم بالمضروبة، كذا في التبيين۔ وتعتبر القيمة عند حولان الحول بعد أن تكون قيمتها في ابتداء الحول مائتي درهم من الدراهم الغالب عليها الفضة، كذا في المضمرات".
"ومن کان له نصاب فاستفاد فی أثناء الحول مالاً من جنسه، ضمه إلی ماله وزکاه سواء کان المستفاد من نمائه أولا، وبأي وجه استفاد ضمه..الخ".
کذا فی فتاویٰ بنوری تاؤن: رقم الفتوی: 143909201678
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی