سوال:
مفتی صاحب! اپنا گھر 95 لاکھ میں فروخت کیا، نیا گھر لینے کے لیے2.2 کروڑ چاہیں، تو یہ جو گھر لینے کے لیے پیسے جمع کیے ہوئے ہیں، ان پر زکوۃ واجب ہوگی؟
جواب: صورت مسئولہ میں آپ کے پاس گھر خریدنے کے لیے جمع شدہ رقم چونکہ زکوۃ کے نصاب (یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت) سے زیادہ ہے، لہذا اس رقم پر سال گزرنے کی صورت میں زکوۃ واجب ہوگی۔
البتہ اگر آپ اس رقم پر سال گذرنے سے پہلے پہلے اپنی رہائش کے لیے گھر خرید لیتے ہیں، تو اس صورت میں رقم خرچ ہوجانے کی وجہ سے اس رقم پر زکوة واجب نہیں ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن الترمذی: (بَابُ مَا جَاءَ فِي زَكَاةِ الذَّهَبِ وَ الوَرِقِ، رقم الحدیث: 620)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَدْ عَفَوْتُ عَنْ صَدَقَةِ الخَيْلِ وَالرَّقِيقِ، فَهَاتُوا صَدَقَةَ الرِّقَةِ: مِنْ كُلِّ أَرْبَعِينَ دِرْهَمًا دِرْهَمًا، وَلَيْسَ فِي تِسْعِينَ وَمِائَةٍ شَيْءٌ، فَإِذَا بَلَغَتْ مِائَتَيْنِ فَفِيهَا خَمْسَةُ دَرَاهِمَ.
الدر المختار: (267/2، ط: دار الفکر)
(وشرطه) أي شرط افتراض أدائها (حولان الحول) وهو في ملكه (وثمنية المال كالدراهم والدنانير) لتعينهما للتجارة بأصل الخلقة فتلزم الزكاة كيفما أمسكهما ولو للنفقة۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی