سوال:
مفتی صاحب! اگر وتر کی آخری رکعت میں سورت اور دعاء قنوت بھول جائیں، تو نماز کا کیا حکم ہوگا؟
جواب: واضح رہے کہ وتر کی تمام رکعات میں سورۃ فاتحہ کے ساتھ کوئی سورت یا چھوٹی تین آیتیں یا ایک بڑی آیت ملانا واجب ہے، اور وتر کی تیسری رکعت میں سورۃ فاتحہ اور سورت کے بعد دعائے قنوت پڑھنا بھی واجب ہے۔
صورت مسئولہ میں اگر آپ وتر کی تیسری رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورت ملانا اور دعائے قنوت پڑھنا بھول گئے تھے، تو اس صورت میں آپ پر سجدہ سہو واجب تھا، اگر آپ نے سجدہ سہو نہیں کیا، تو نماز کے وقت کے اندر اندر وتر کا اعادہ واجب ہوگا، وقت گزرجانے کے بعد اعادہ مستحب ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفقه علی مذاهب الأربعة: (259/1، ط: دار احیاء التراث العربي)
ضم سورة إلی الفاتحة في جمیع رکعات النفل والوتر والأولیین من الفرض ویکفي في أداء الواجب أقصر سورة أو ما یماثلها کثلاث آیات قصار أو آیة طویلة والآیات القصار الثلاث.
الدر المختار: (9/1- 10، ط: سعید)
(ولونسیہ) أی القنوت( ثم تذکرہ فی الرکوع لایقنت) فیہ لفوات محلہ (ولایعود الی القیام) فی الاصح لان فیہ رفض الفرض للواجب (فان عادالیہ وقنت ولم یعدا لرکوع لم تفسد صلا تہ)لکون رکوعہ بعدقراء ۃ تامۃ..(وسجد للسہو)قنت اولا لزوالہ عن محلہ۔
حاشیة الطحطاوی علی مراقی الفلاح: (ص: 461، ط: دار الکتب العلمیة)
وإن تكرر" بالإجماع كترك الفاتحة والاطمئنان في الركوع والسجود والجلوس الأول وتأخير القيام للثالثة بزيادة قدر أداء ركن ولو ساكنا "وإن كان تركه" الواجب "عمدا أثم ووجب" عليه "إعادة الصلاة"
قوله: "ووجب عليه إعادة الصلاة" فإن لم يعدها حتى خرج الوقت سقطت عنه مع كراهة التحريم هذا هو المعتمد۔
کذا فی فتاویٰ بنوری تاؤن: رقم الفتوی: 144105200352
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی