سوال:
مفتی صاحب! کیا رمضان کے تین عشروں کی دعائیں حدیث سے ثابت ہیں؟ اگر کوئی مخصوص دعا ہے تو بتا دیں۔
جواب: واضح رہے کہ ر مضان کی تین عشروں میں تقسیم حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ایک طویل روایت میں ہے، جسے صحیح ابن خزیمہ میں نقل کیا گیا ہے کہ رمضان ایسا مبارک مہینہ ہے، جس کا ابتدائی حصہ رحمت ہے اور درميانى حصہ بخشش اور آخرى حصہ جہنم سے آزادى كا باعث ہے۔
۱۔ یہ روایت سند کے اعتبار سے ضعیف ہے ۔
۲۔ فضائل کے باب میں ضعیف روایت، اگرچہ قابلِ قبول ہے، لیکن اس روایت میں رمضان المبارک کے تین عشروں کی الگ الگ دعاؤں کا ذکر نہیں ہے اور نہ ہی کسی اور روایت میں اس کا ذکر ہے۔
۳۔ حضرت سلمان فارسی ؓ کی اس روایت میں چار کام کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔
’’اس ماہ مبارك ميں چار كام زيادہ سے زيادہ كيا كرو، دو كے ساتھ تو تم اپنے پروردگار كو راضى كرو گے، اور دو خصلتيں ايسى ہيں، جن سے تم بے پرواہ نہيں ہو سكتے، جن دو خصلتوں سے تم اپنے پروردگار كو راضى كر سكتے ہو، وہ يہ ہيں: اس بات كى گواہى دينا كہ اللہ تعالى كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں، اور اس سے بخشش طلب كرنا اور جن دو خصلتوں كے بغير تمہيں كوئى چارہ نہيں: جنت كا سوال كرنا، اور جہنم سے پناہ مانگنا۔"
۴۔ دعا کے الفاظ کا شرعاً درست ہونا ضروری ہے، سنت سے ثابت ہونا ضروری نہیں ہے، البتہ کسی دعا کو کسی متعین وقت کے ساتھ خاص کرنا اور اسی وقت کو لازم سمجھنا درست نہیں ہے۔
خلاصہ کلام :
رمضان میں خوب دعاؤں کا اہتمام کرنا چاہیے، البتہ کسی مخصوص عشرہ سے متعلق کسی مخصوص دعا کا کسی روایت سے ثبوت نہیں ہے، تاہم بعض بزرگوں سے پہلے عشرہ میں’’ رب اغفر وارحم وانت خیر الراحمین‘‘، دوسرے میں ’’ استغفر اللہ ربی من کل ذنب واتوب الیہ،‘‘ اور تیسرے میں ’’اللھم انک عفو تحب العفو فاعف عنا ‘‘ کا اہتمام منقول ہے، یہ آخری دعا احادیث میں بھی طاق راتوں میں مانگنے کی ترغیب وارد ہے۔
ان دعاؤں کو سنت اور لازم سمجھے بغیر پڑھنا درست ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح ابن خزیمۃ: (رقم الحدیث: 1887، 191/3، ط: المکتب الإسلامی)
وهو شهر أوله رحمة، وأوسطه مغفرة، وآخره عتق من النار، من خفف عن مملوكه غفر الله له، وأعتقه من النار، واستكثروا فيه من أربع خصال: خصلتين ترضون بهما ربكم، وخصلتين لا غنى بكم عنهما، فأما الخصلتان اللتان ترضون بهما ربكم: فشهادة أن لا إله إلا الله، وتستغفرونه، وأما اللتان لا غنى بكم عنهما: فتسألون الله الجنة، وتعوذون به من النار، ومن أشبع فيه صائما سقاه الله من حوضي شربة لا يظمأ حتى يدخل الجنة "
الاعتصام للشاطبي: (53/1، ط: دار ابن عفان)
ومنها: التزام العبادات المعينة في أوقات معينة لم يوجد لها ذلك التعيين في الشريعة، كالتزام صيام يوم النصف من شعبان وقيام ليلته.
الاعتصام للشاطبي: (389/1، ط: دار ابن عفان)
إِذَا ثَبَتَ هَذَا؛ فَالدُّخُولُ فِي عَمَلٍ عَلَى نِيَّةِ الِالْتِزَامِ لَهُ، إِذَا ثَبَتَ هَذَا، فَالدُّخُولُ فِي عَمَلٍ عَلَى نِيَّةِ الِالْتِزَامِ لَهُ إِنْ كَانَ فِي الْمُعْتَادِ، بِحَيْثُ إِذَا دَاوَمَ عَلَيْهِ؛ أَوْرَثَ مَلَلًا، يَنْبَغِي أَنْ يُعْتَقَدَ أَنَّ هَذَا الِالْتِزَامَ مَكْرُوهٌ ابْتِدَاءً، إِذْ هُوَ مُؤَدٍّ إِلَى أُمُورِ جَمِيعُهَا مَنْهِيٌّ عَنْهُ:
أَحَدُهَا: أَنَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أَهْدَى فِي هَذَا الدِّينِ التَّسْهِيلَ وَالتَّيْسِيرَ، وَهَذَا الْمُلْتَزِمَ يُشْبِهُ مَنْ لَمْ يَقْبَلْ هَدِيَّتَهُ، وَذَلِكَ يُضَاهِي رَدَّهَا عَلَى مُهْدِيهَا، وَهُوَ غَيْرُ لَائِقٍ بِالْمَمْلُوكِ مَعَ سَيِّدِهِ، فَكَيْفَ يَلِيقُ بِالْعَبْدِ مَعَ رَبِّهِ؟ ۔۔۔۔۔وَالْخَامِسُ): الْخَوْفُ مِنَ الدُّخُولِ تَحْتَ الْغُلُوِّ فِي الدِّينِ؛ فَإِنَّ الْغُلُوَّ هُوَ الْمُبَالَغَةُ فِي الْأَمْرِ، وَمُجَاوَزَةُ الْحَدِّ فِيهِ إِلَى حَيِّزِ الْإِسْرَافِ
فتاوى اللجنة الدائمة: (203/24، ط: رئاسة إدارة البحوث العلمية)
باب الأدعية واسع ، فليدع العبد ربه بما يحتاجه مما لا إثم فيه۔أما الأدعية والأذكار المأثورة : فالأصل فيها التوقيف من جهة الصيغة والعدد ، فينبغي للمسلم أن يراعي ذلك ، ويحافظ عليه ، فلا يزيد في العدد المحدد ، ولا في الصيغة ، ولا ينقص من ذلك ولا يحرف فيه۔
کذا فی فتاوی بنوری تاؤن: رقم الفتوی: 143607200035
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی