سوال:
مفتی صاحب ! کیا مردہ شخص کا قرضہ اتارنے کے لیے زکوٰۃ کی رقم استعمال کی جاسکتی ہے؟
جواب: واضح رہے کہ زکوۃ کی ادائیگی کے صحیح ہونے کے لیے ضروری ہے کہ کسی مستحقِ زکوۃ شخص کو زکوۃ کا مالک بنایا جائے۔ میت میں چونکہ مالک بننے اور خود قبضہ کرنے کی اہلیت نہیں ہے، لہٰذا زکوۃ کی رقم سے میت کا قرض ادا کرنے سے زکوۃ ادا نہیں ہوگی۔
ہاں! اگر میت کے ورثاء میت کا قرض ادا کرنا چاہتے ہوں اور وہ زکوۃ کے مستحق بھی ہوں، تو ان کو زکوۃ کی رقم مالک بنا کر دی جاسکتی ہے، پھر ورثاء اپنی خوشی ورضامندی سے اس رقم کے ذریعہ میت کا قرض ادا کردیں، تو اس طریقے سے زکوة بھی ادا ہوجائے گی، اور میت کا قرض بھی ادا ہو جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (344/2، ط: دار الفکر)
ويشترط أن يكون الصرف (تمليكا) لا إباحة كما مر (لا) يصرف (إلى بناء) نحو (مسجد و) لا إلى (كفن ميت وقضاء دينه)۔
(قوله: ولا إلى كفن ميت) لعدم صحة التمليك منه؛ ألا ترى أنه لو افترسه سبع كان الكفن للمتبرع لا للورثة نهر۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی