resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: مستحق اور غیر مستحق کا زکوٰۃ کی مد میں راشن وصول کرنے کا حکم(7353-No)

سوال: مفتی صاحب! کچھ لوگ راشن بانٹ رہے ہیں، لیکن کس مد میں بانٹ رہے ہیں، یہ نہیں معلوم، تو اس راشن کا لینا کیسا ہے؟

جواب: واضح رہے کہ عام طور پر راشن تقسیم کرنے والے یہ بتا کر راشن تقسیم کرتے ہیں کہ یہ زکوٰۃ کا راشن ہے، لہذا اس صورت میں صرف مستحق لوگوں کو ہی زکوٰۃ کا راشن وصول کرنا چاہیے، جو شخص زکوٰۃ کا مستحق نہ ہو اور وہ زکوٰۃ کا راشن وصول کر لے، تو یہ اس کی طرف سے خیانت اور گناہ ہے، جس پر اسے توبہ کرنی چاہیے۔
نیز اگر زکوۃ دینے والے کا غالب گمان اور تحقیق یہ ہو کہ جسے زکوۃ دی جارہی ہے، وہ زکوۃ کا مستحق ہے، تو ایسے شخص کو زکوۃ دینے سے زکوۃ ادا ہو جائے گی، اگرچہ بعد میں یہ ظاہر ہو کہ زکوۃ کسی غیر مستحق کو دے دی گئی ہے۔
اگر راشن تقسیم کرنے والا یہ بتادے کہ یہ عطیہ ہے، زکوۃ نہیں ہے، تو ایسے راشن کو مستحق اور غیر مستحق دونوں لے سکتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (التوبۃ، الآیۃ: 60)
إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمo

تفسیر القرطبی: (171/8، ط: دار الکتب المصریة)
الْخَامِسَةُ- وَقَدِ اخْتَلَفَ الْعُلَمَاءُ فِي حَدِّ الْفَقْرِ الَّذِي يَجُوزُ مَعَهُ الْأَخْذُ- بَعْدَ إِجْمَاعِ أَكْثَرُ مَنْ يُحْفَظُ عَنْهُ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ- أَنَّ من له دارا وخادما لَا يَسْتَغْنِيَ عَنْهُمَا أَنَّ لَهُ أَنْ يَأْخُذَ مِنَ الزَّكَاةِ، وَلِلْمُعْطِي أَنْ يُعْطِيَهُ. وَقَالَ أَبُو حَنِيفَةَ: مَنْ مَعَهُ عِشْرُونَ دِينَارًا أَوْ مائتا درهم فلا يأخذ من الزكاة. فَاعْتَبَرَ النِّصَابَ لِقَوْلِهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ: (أُمِرْتُ أَنْ آخُذَ الصَّدَقَةَ من أغنيائكم وارد ها فِي فُقَرَائِكُمْ). وَهَذَا وَاضِحٌ، وَرَوَاهُ الْمُغِيرَةُ عَنْ مالك.

الدر المختار مع رد المحتار: (347/2، ط: دار الفکر)
(و) لا إلى (غني) يملك قدر نصاب فارغ عن حاجته الأصلية من أي مال كان۔
(قوله: فارغ عن حاجته) قال في البدائع: قدر الحاجة هو ما ذكره الكرخي في مختصره فقال: لا بأس أن يعطي من الزكاة من له مسكن، وما يتأثث به في منزله وخادم وفرس وسلاح وثياب البدن وكتب العلم إن كان من أهله، فإن كان له فضل عن ذلك تبلغ قيمته مائتي درهم حرم عليه أخذ الصدقة، لما روي عن الحسن البصري قال كانوا يعني: الصحابة يعطون من الزكاة لمن يملك عشرة آلاف درهم من السلاح والفرس والدار والخدم، وهذا؛ لأن هذه الأشياء من الحوائج اللازمة التي لا بد للإنسان منها.
(قوله: ولا إلى غني) استثنى منه القهستاني المكاتب وابن السبيل والعامل، ومقتضاه جواز الدفع إلى المكاتب وإن حصل نصابا زائدا على بدل الكتابة، وقدمنا نحوه عن شرح ابن الشلبي، وأما دفعها إلى السلطان فتقدم الكلام عليه أول الزكاة وكذا لو جمع رجل لفقير زكاة من جماعة.

الفتاوى الھندية: (189/1)
"اذاشک وتحری فوقع فی اکبر رأیہ انہ محل الصدقۃ فدفع الیہ اوسأل منہ فدفع أو راہ فی صف الفقراء فدفع فان ظھر أنہ محل الصدقۃ جاز بالاجماع وکذا ان لم یظھر حالہ عندہ واما اذا ظھر انہ غنی أو ھاشمی أو کافر أو مولی الھاشمی أو الوالدان أو المولودون أو الزوج أو الزوجۃ فانہ یجوز وتسقط عنہ الزکوۃ… واذا دفعھا ولم یخطر ببالہ انہ مصرف أم لافھو علی الجواز الا اذا تبین انہ غیر مصرف واذا دفعھا الیہ وھو شاک ولم یتحرأ وتحری ولم یظھر لہ أنہ مصرف أو غلب علی ظنہ انہ لیس بمصرف فھو علی الفساد الا اذا تبین انہ مصرف".

الدر المختار: (352/2)
"(دفع بتحر) لمن یظنہ مصرفاً(فبان انہ عبدہ أومکاتبہ أو حربی ولو مستأمنا أوا عادھا) لمامر (وان بان غناہ أو کونہ ذمیا او انہ ابوہ أو ابنہ او امراتہ او ھاشمی لا) یعید لانہ أتی بما فی وسعہ حتی لو دفع بلا تحرلم یجز ان أخطا".

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

zakat ka musatahiq kon hai? or mustahiq ka zakat wusool karne ka hukum, Who is entitled to Zakat? And the order to receive Zakat by / from the undeserving

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Zakat-o-Sadqat