سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! امید ہے کہ خیریت سے ہونگے۔
بچوں کے لئے مختص کیا گیا سونا، جو کہ فی الوقت وقت ماں کے استعمال میں ہے، لیکن نیت یہ ہے کہ اپنی بیٹیوں کو ان کی شادی پر دیا جائے گا۔
یا ان کے اخراجات تعلیم و تربیت وغیرہ کے لیے جمع شدہ رقم یا کوئی پلاٹ اس نیت سے لے کر فریز کردیا جائےکہ بچوں کی شادی اور تعلیم و تربیت پر خرچ کریں گے۔
تو ایسی جمع شدہ رقم یا ایسے پلاٹ پر زکاۃ واجب ہوگی یا نہیں؟
جواب: 1) شادی کی غرض سے اگر رقم، سونا یا چاندی جمع کیے جائیں، تو اس میں زکوۃ واجب ہوگی، البتہ اگر والدین اولاد کو اس مال کا مالک بنادیں، پھر خود اس میں مالکانہ تصرف نہ کریں، تو والدین پر اس مال کی زکوۃ لازم نہیں ہوگی۔
اس صورت میں اگر اولاد نابالغ ہوں، تو ان پر بھی زیورات وغیرہ کی زکوۃ واجب نہیں ہوگی۔
ہاں! اگر وہ بالغ ہوں اور ان کی ملکیت میں جو مال ہے، وہ نصاب کو پہنچ جائے، یعنی اگر ان کے پاس صرف سونا ہو تو ساڑھے سات تولہ سونا، اور صرف چاندی ہو تو ساڑھے باون تولہ چاندی، یا دونوں میں سے کسی ایک کی مالیت کے برابر نقدی یا سامانِ تجارت ہو، یا یہ سب ملا کر یا ان میں سے بعض ملا کر مجموعی مالیت چاندی کے نصاب کے برابر بنتی ہو تو ان پر سال پورا ہونے پر ڈھائی فیصد زکوۃ ادا کرنا لازم ہے، ورنہ نہیں۔
2) صورتِ مسئولہ میں اگر پلاٹ تجارت کی نیت سے خریدا گیا ہے، تاکہ بعد میں بیچ کر اس کی رقم سے بچوں کی شادی بیاہ اور تعلیم و تربیت کا انتظام کیا جائے، تو ایسے پلاٹ کی قیمت فروخت پر زکوة واجب ہوگی، اور اگر پلاٹ تجارت کی نیت سے نہیں خریدا گیا، لیکن پھر بعد میں بچوں کی شادی بیاہ اور تعلیم و تربیت کے انتظام کے لیے اُس کو بیچنے کا ارادہ ہو جائے، تو محض بیچنے کے ارادے سے اُس کی رقم پر زکوة واجب نہ ہوگی، بلکہ جب اُس کو بیچ دیا جائے گا، پھر اُس کی رقم پر زکوة کے ضابطہ کے مطابق زکوة واجب ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن الترمذی: (بَابُ مَا جَاءَ فِي زَكَاةِ الذَّهَبِ وَ الوَرِقِ، رقم الحدیث: 620)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَدْ عَفَوْتُ عَنْ صَدَقَةِ الخَيْلِ وَالرَّقِيقِ، فَهَاتُوا صَدَقَةَ الرِّقَةِ: مِنْ كُلِّ أَرْبَعِينَ دِرْهَمًا دِرْهَمًا، وَلَيْسَ فِي تِسْعِينَ وَمِائَةٍ شَيْءٌ، فَإِذَا بَلَغَتْ مِائَتَيْنِ فَفِيهَا خَمْسَةُ دَرَاهِمَ.
الدر المختار: (267/2، ط: دار الفکر)
(وشرطه) أي شرط افتراض أدائها (حولان الحول) وهو في ملكه (وثمنية المال كالدراهم والدنانير) لتعينهما للتجارة بأصل الخلقة فتلزم الزكاة كيفما أمسكهما ولو للنفقة۔
و فیہ ایضاً: (258/2، ط: دار الفکر)
(وشرط افتراضها عقل وبلوغ۔
(قوله عقل وبلوغ) فلا تجب على مجنون وصبي لأنها عبادة محضة وليسا مخاطبين بها۔
شرح المجلۃ رستم باز: (رقم المادۃ: 57، 42/1)
والتبرع لا یتم إلا بالقبض، فإذا وہب أحد لآخر شیئا لا تتم ھبۃ إلا بقبضہ۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی