سوال:
کوئی پلاٹ اس نیت سے لے کر فریز کردیا جائے کہ بچوں کی شادی اور تعلیم و تربیت پر خرچ کریں گے تو ایسے پلاٹ پر زکاۃ واجب ہوگی یا نہیں؟
جواب: پوچھی گئی صورت میں اگر پلاٹ خریدتے وقت اس کو بیچنے کی حتمی نیت تھی تو یہ مالِ تجارت ہے اور ایسے پلاٹ کی قیمت فروخت پر زکوة واجب ہوگی اور اگر پلاٹ تجارت کی نیت سے نہیں خریدا گیا، لیکن پھر بعد میں بچوں کی شادی بیاہ اور تعلیم و تربیت کے انتظام کے لیے اُس کو بیچنے کا ارادہ ہو جائے تو محض بیچنے کے ارادے سے اُس کی رقم پر زکوة واجب نہ ہوگی، بلکہ جب اُس کو بیچ دیا جائے گا، پھر اُس کی رقم پر زکوة کے ضابطہ کے مطابق زکوة واجب ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن الترمذی: (بَابُ مَا جَاءَ فِي زَكَاةِ الذَّهَبِ وَ الوَرِقِ، رقم الحدیث: 620)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَدْ عَفَوْتُ عَنْ صَدَقَةِ الخَيْلِ وَالرَّقِيقِ، فَهَاتُوا صَدَقَةَ الرِّقَةِ: مِنْ كُلِّ أَرْبَعِينَ دِرْهَمًا دِرْهَمًا، وَلَيْسَ فِي تِسْعِينَ وَمِائَةٍ شَيْءٌ، فَإِذَا بَلَغَتْ مِائَتَيْنِ فَفِيهَا خَمْسَةُ دَرَاهِمَ.
الدر المختار: (267/2، ط: دار الفکر)
(وشرطه) أي شرط افتراض أدائها (حولان الحول) وهو في ملكه (وثمنية المال كالدراهم والدنانير) لتعينهما للتجارة بأصل الخلقة فتلزم الزكاة كيفما أمسكهما ولو للنفقة۔
و فیہ ایضاً: (258/2، ط: دار الفکر)
(وشرط افتراضها عقل وبلوغ۔
(قوله عقل وبلوغ) فلا تجب على مجنون وصبي لأنها عبادة محضة وليسا مخاطبين بها۔
شرح المجلۃ رستم باز: (رقم المادۃ: 57، 42/1)
والتبرع لا یتم إلا بالقبض، فإذا وہب أحد لآخر شیئا لا تتم ھبۃ إلا بقبضہ۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی