عنوان: غیر تقسیم شدہ میراث کے مکان میں حصہ ہونے کی صورت میں غریب وارث کو زکوۃ دینے کا شرعی حکم(7378-No)

سوال: مفتی صاحب! ایک بیوہ خاتون ہیں، ان کے شوہر نے ترکہ میں ایک پلاٹ چھوڑا ہے، جو ابھی تقسیم نہیں ہوا، ان بیوہ خاتون پر لاکھ قرضہ بھی ہے، اور ایک ہی بیٹا کمانے والا ہے، اس کی تنخواہ پندرہ ہزار ہے، تو کیا ایسی بیوہ کو زکوۃ دی جا سکتی ہے؟ نیز یہ بھی بتادیں کہ زکوۃ دیتے ہوئے یہ بتانا ضروری ہے کہ یہ زکوۃ کے پیسے ہیں؟

جواب: صورتِ مسئولہ میں چونکہ عورت غریب، ضرورت مند، اور مقروض ہے، اور شوہر کے انتقال کے بعد اب تک ترکہ بھی تقسیم نہیں ہوا ہے، جس کی وجہ سے اس کا شوہر کے ترکہ کے مکان میں اپنے حصے پر قبضہ متحقق نہیں ہوا ہے، لہذا وہ عورت زکوۃ کی مستحق ہے، اس کو زکوۃ دے سکتے ہیں۔
نیز مستحق زکوۃ کو یہ بتانا ضروری نہیں ہے کہ یہ زکوۃ کی مد میں ہے، بلکہ ہدیہ کا نام لے کر بھی زکوۃ دی جاسکتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (التوبۃ، الآیۃ: 60)
إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمo

تفسیر القرطبی: (171/8، ط: دار الکتب المصریة)
الْخَامِسَةُ- وَقَدِ اخْتَلَفَ الْعُلَمَاءُ فِي حَدِّ الْفَقْرِ الَّذِي يَجُوزُ مَعَهُ الْأَخْذُ- بَعْدَ إِجْمَاعِ أَكْثَرُ مَنْ يُحْفَظُ عَنْهُ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ- أَنَّ من له دارا وخادما لَا يَسْتَغْنِيَ عَنْهُمَا أَنَّ لَهُ أَنْ يَأْخُذَ مِنَ الزَّكَاةِ، وَلِلْمُعْطِي أَنْ يُعْطِيَهُ.
وَقَالَ أَبُو حَنِيفَةَ: مَنْ مَعَهُ عِشْرُونَ دِينَارًا أَوْ مائتا درهم فلا يأخذ من الزكاة.فَاعْتَبَرَ النِّصَابَ لِقَوْلِهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ: (أُمِرْتُ أَنْ آخُذَ الصَّدَقَةَ من أغنيائكم وارد ها فِي فُقَرَائِكُمْ). وَهَذَا وَاضِحٌ، وَرَوَاهُ الْمُغِيرَةُ عَنْ مالك.

الدر المختار مع رد المحتار: (347/2، ط: دار الفکر)
(و) لا إلى (غني) يملك قدر نصاب فارغ عن حاجته الأصلية من أي مال كان۔
(قوله: فارغ عن حاجته) قال في البدائع: قدر الحاجة هو ما ذكره الكرخي في مختصره فقال: لا بأس أن يعطي من الزكاة من له مسكن، وما يتأثث به في منزله وخادم وفرس وسلاح وثياب البدن وكتب العلم إن كان من أهله، فإن كان له فضل عن ذلك تبلغ قيمته مائتي درهم حرم عليه أخذ الصدقة، لما روي عن الحسن البصري قال كانوا يعني: الصحابة يعطون من الزكاة لمن يملك عشرة آلاف درهم من السلاح والفرس والدار والخدم، وهذا؛ لأن هذه الأشياء من الحوائج اللازمة التي لا بد للإنسان منها.

الفتاوی الھندیۃ: (171/1، ط: دار الفکر)
ومن أعطى مسكينا دراهم وسماها هبة أو قرضا ونوى الزكاة فإنها تجزيه، وهو الأصح هكذا في البحر الرائق ناقلا عن المبتغى والقنية

کذا فی فتاوی بنوری تاؤن، رقم الفتوی: 144109202941

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 592 Apr 26, 2021
ghair taqseem shuda meeras kay makaan mai hissa honay ki soorat mai ghareeb waaris ko zakat dene ka shar'ee hukum, Shariah Ruling on Paying Zakat to a Poor Heir in the Case of an Undivided Inheritance Share in the House

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Zakat-o-Sadqat

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.