سوال:
مفتی صاحب! کیا عورت اعتکاف میں بیٹھ کر نویں دسویں کلاس کے بچوں اور بچیوں کی آن لائن کلاس لے سکتی ہے؟
جواب: اعتکاف کی حقیقت یہ ہے کہ انسان ہر طرف سے یکسو اور سب سے ہر قسم کا تعلق ختم کر کے بس اللہ تعالیٰ سے لو لگا کے مسجد کی کسی جگہ پر بیٹھ جائے، اور سب سے الگ تنہائی میں اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اسی کے ذکر و فکر میں مشغول رہے، اس لیے معتکف کے لیے ضروری ہے کہ ہر اس کام سے اجتناب کرے جس سے اعتکاف کا مقصد فوت ہوتا ہو۔
حالت اعتکاف میں دنیاوی تعلیم دینا یا اور کوئی ملازمت کا کام کرنا مکروہ ہے، لیکن اگر معتکفہ کو ملازمت سے رخصت نہیں مل رہی ہو، اور اس کا گزر بسر صرف اس تدریس کے کام پر ہو، تو پھر احکامِ ستر و حجاب کی مکمل پابندی کرتے ہوئے اس کے لئے پڑھانے کی گنجائش ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (الاحزاب، الآیة: 32)
فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِہِ مَرَضٌ....الخ
و قولہ تعالی: (النور، الآیۃ: 31)
وَلَا یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِہِنَّ لِیُْعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِہِنَّ....الخ
الفتاوى الھندیۃ: (321/5، ط: مکتبہ رشیدیہ)
ولو جلس المعلم في المسجد والوراق يكتب، فإن كان المعلم يعلم للحسبة والوراق يكتب لنفسه فلا بأس به؛ لأنه قربة، وإن كان بالأجرة يكره إلا أن يقع لهما الضرورة، كذا في محيط السرخسي۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی