سوال:
السلام علیکم، اگر کسی کے گھر میں سب کرونا وائرس سے بیمار ہوں، اُن میں سے ایک شخص کو شدید تکلیف کی وجہ سے ہاسپٹل ایڈمت کرانا پڑے۔ کوئی گھر کا فرد خود بیماری کی وجہ سے ہاسپٹل نہیں رہ سکتا تو کیا اس مشکل وقت میں اُن کی مدد کے لیے ہسپتال نہ رہنے سے گناہ ہو گا، جب کہ ڈر ہو کہ لے جانے والے کے بیوی بچے بھی بیمار نہ ہو جائیں؟
جواب: حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایک مسلما ن کے دوسرے مسلمان پر پانچ حقوق ہیں، جن میں سے ایک مریض کی عیادت کرنا ہے۔
اس لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے کورونا وائرس کے مریض کی عیادت کرنا، دیگر مریضوں کی عیادت کرنے کی طرح باعث اجر و ثواب ہے، اور کورونا وائرس کے مریض کو بے یار و مددگار چھوڑ دینا اور اس کی تیمار داری یا عیادت سے خود کو بیماری لگنے کا وہم رکھنا، عقیدہ کی کمزوری کی علامت ہے۔
یہ بات ذہن نشین رہے کہ بیماری بذات خود ایک سے دوسرے کو نہیں لگ سکتی، جب تک اللہ تعالیٰ کی مشیت اور مرضی نہ ہو، اس لیے اگر مرض کے خوف سے عیادت، جو کہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر حق ہے، چھوڑ دی جائے، تو مریض کے لیے بیماری کی تکلیف مزید بڑھ جائے گی، لہذا ظاہری اسباب کے درجے میں احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے، کورونا وائرس کے مریض کی تیمارداری اور عیادت کی جائے اور بیماری لازمی طور پر دوسرے کو لگنے کے نظریہ سے بچا جائے ،کیونکہ یہ ایمان کے لئے خطرناک ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح البخاری: (رقم الحدیث: 124، 71/2، ط: دار طوق النجاۃ)
حدثنا محمد، حدثنا عمرو بن أبي سلمة، عن الأوزاعي، قال: أخبرني ابن شهاب، قال: أخبرني سعيد بن المسيب، أن أبا هريرة رضي الله عنه، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " حق المسلم على المسلم خمس: رد السلام، وعيادة المريض، واتباع الجنائز، وإجابة الدعوة، وتشميت العاطس "
شرح النووی: (31/14، ط: دار إحیاء التراث العربی)
أما عيادة المريض فسنة بالإجماع وسواء فيه من يعرفه ومن لايعرفه والقريب والأجنبي
کذا فی فتاوی بنوری تاؤن: رقم الفتوی: 144110200817
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی