سوال:
السلام علیکم،
حضرت !ہماری مسلحہ مسجد میں کچھ ساتھی اعتکاف میں ہیں، مسئلہ یہ معلوم کرنا تھا کہ نماز جمعہ ادا کرنے کے لیے ان کو قریبی مسجد میں جانا ہو گا، ان کو باہر نکلتے ہوئے کن کن چیزوں کی احتیاط رکھنی ہے؟
اور دوسرا مسئلہ یہ معلوم کرنا تھا کہ ہماری مسجد میں ایک ہی باتھ روم ہے، جو اٹیچ ہے، جو کہ مسجد کی حدود سے الگ ہے، کیا وہ اپنے اپنے گھر بغیر کسی سے بات کرے غسل کرکے مسجد میں واپس آسکتے ہیں؟ کیا شریعت میں اس کی گنجایش ہے؟
یہ واضح کر دوں کہ مسجد گراؤنڈ فلور پر ہے، اور ساتھی پہلی، دوسری اور تیسری منزل پر ہی رہتے ہیں، یہ بتانے کا مقاصد یہی ہے کہ ان کو کہیں باہر نکلنے کی ضرورت پیش نہیں ہے۔
جواب: 1) معتکف کی مسجد میں اگر جمعہ کی نماز نہیں ہوتی ہے، تو اس کو جامع مسجد میں جمعہ پڑھنے کے لیے جانے کی اجازت ہے، البتہ راستے میں آنکھوں کی حفاظت کرتے ہوئے، ذکر واذکار میں خود کو مشغول رکھیں۔
واضح رہے کہ جامع مسجد اتنی دیر پہلے جانا چاہیے کہ خطبہ شروع ہونے سے پہلے وہاں دورکعت نفل تحیۃالمسجد اور چار رکعت سنت اطمینان سے پڑھ لے، اس کا اندازہ گھڑی دیکھ کر کرسکتا ہے، پھر جمعہ کے فرضوں کے بعد چھ رکعت سنتیں اور نفل پڑھ کر اپنی اعتکاف والی مسجد میں آجانا چاہیے۔
2) رمضان المبارک کے آخری عشرے کے اعتکاف میں معتکف کے لیے واجب غسل کے علاوہ جمعہ کے مسنون غسل کے لیے نکلنے کی اجازت نہیں ہے، اگر نکلے گا تو اعتکاف فاسد ہوجائے گا، اور ایک دن اور ایک رات اعتکاف کی قضا روزے کے ساتھ کرنا لازم ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
مؤطا الامام مالک: (باب ما لا یجوز الاعتکاف إلا به، رقم الحدیث: 4، ط: دار احیاء التراث العربی)
حدثنی یحیي عن مالك؛ أنه بلغه أن القاسم بن محمد ونافعا مولى عبد الله بن عمر، قالا: لا اعتكاف إلا بصيام. يقول (1) الله تبارك وتعالى في كتابه: {وكلوا واشربوا حتى يتبين لكم الخيط الأبيض من الخيط الأسود من الفجر ثم أتموا الصيام إلى الليل ولا تباشروهن وأنتم عاكفون في المساجد} [البقرة 2: 187]. فإنما ذكر الله الاعتكاف مع الصيام.قال مالك: وعلى ذلك، الأمر عندنا. أنه لا اعتكاف إلا بصيام.
و فیہ ایضا: (باب ما لا یجوز الاعتکاف إلا به، رقم الحدیث: 6، ط: دار احیاء التراث العربی)
حدثنی یحیي، عن زیاد، مالك؛ أنه رأى بعض أهل العلم، إذا اعتكفوا العشر (2) الأواخر من رمضان، لا يرجعون إلى أهليهم، حتى يشهدوا الفطر مع الناس. قال زياد: قال مالك: وبلغني ذلك عن أهل الفضل الذين مضوا. قال يحيى، قال زياد: قال مالك: وهذا أحب ما سمعت إلي في ذلك.
الدر المختار: (445/2، ط: دار الفکر)
(وحرم عليه) أي على المعتكف اعتكافا واجبا أما النفل فله الخروج لأنه منه لا مبطل كما مر (الخروج إلا لحاجة الإنسان) طبيعية كبول وغائط وغسل لو احتلم ولا يمكنه الاغتسال في المسجد كذا في النهر (أو) شرعية كعيد وأذان لو مؤذنا وباب المنارة خارج المسجد و (الجمعة وقت الزوال ومن بعد منزله) أي معتكفه (خرج في وقت يدركها) مع سنتها يحكم في ذلك رأيه، ويستن بعدها أربعا أو ستا على الخلاف، ولو مكث أكثر لم يفسد لأنه محل له وكره تنزيها لمخالفة ما التزمه بلا ضرورة.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی