سوال:
مفتی صاحب! میرے دو بچے ہیں، 6 سال کی بیٹی اور 9 سال کا بیٹا، ان کی ہمیشہ خواہش ہوتی ہے کہ نماز کے لئے مسجد جائیں۔آج مجھے مسجد میں کسی نے کہا کہ 6 سال کی لڑکی کو مسجد لیکر نہ آؤں، کیونکہ وہ نابالغ ہے، براہ مہربانی اس سلسلے میں رہنمائی فرمائیں۔
جواب: مسجد ایک پاکیزہ و مقدس مقام ہے جو محض ذکر و عبادت کی جگہ ہے، مسجد میں ایسا کوئی عمل جو مسجد کی حرمت و تقدس کے منافی ہو، حدیث کے رو سے ممنوع ہے۔ حدیث نبوی ہے:"اپنی مسجدوں کو بچوں اور دیوانوں سے بچاؤ، نیز خرید و فروخت، لڑائی جھگڑے، آواز بلند کرنے، حد قائم کرنے اور تلواریں کھینچنے سے مسجدوں کو بچاؤ، مسجد کے دروازے پر طہارت کے واسطے جگہ بناؤ، جمعہ کے دن مسجدوں میں خوشبو کی دھونی دو" (سنن ابن ماجہ)
مذکورہ حدیث شریف کی روشنی میں علماء کرام نے بچوں کے مسجد لانے میں درج ذیل تفصیل بیان کی ہے:
1) چھوٹے بچے جو مسجد کی پاکی کا خیال نہیں رکھ سکتے اور جن کا مسجد میں پیشاب پاخانہ کردینے کا اندیشہ ہو، ایسے بچوں کو مسجد لانا مکروہ تحریمی ہے۔
2) ایسے نا سمجھ بچے جو نماز کی اہمیت اور مسجد کے احترام سے ناواقف ہوں اور ان کی وجہ سے دیگر نمازیوں کی نماز میں خلل پڑتا ہو، ایسے ناسمجھ بچوں کو مسجد لانا مکروہ تنزیہی ہے۔
3) ایسے بچے جو باشعور ہونے کے ساتھ ساتھ تربیت یافتہ اور سلیقہ مند ہوں، پاکی ناپاکی کا خیال رکھتے ہوں، مسجد میں شرارتیں، شور نہ مچاتے ہوں اور احترامِ مسجد کو ملحوظ رکھتے ہوئے، خاموشی سے نماز ادا کریں، ان کو نماز کی ترغیب اور عادت کے لئے مسجد لانا نہ صرف جائز بلکہ مستحسن ہے۔
البتہ سرپرست کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچے کو مسجد میں ساتھ لانے کے بعد اس کی نگرانی کرے اور اسے مسجد میں شور مچانے اور کھیلنے سے روکے، مسجد لانے کے بعد بچوں کو یونہی چھوڑ دینا کہ وہ دیگر نمازیوں کی نماز میں خلل ڈالے اور مناسب طریقے سے سمجھانے کی کوشش نہ کرنا یا اتنی کم عمر کے بچے لانا، جن سے مسجد کی ناپاکی کا اندیشہ ہو، سرپرست کے حق میں مسجد کی بے ادبی اور گناہ ہے، اس سے بچنا چاہیئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن ابن ماجہ: (ما یکره في المساجد، رقم الحدیث: 247، ط: دار الفکر)
عن واثلة بن الأسقع: أن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: "جنبوا مساجدكم صبيانكم ومجانينكم وشراركم وبيعكم وخصوماتكم ورفع أصواتكم وإقامة حدودكم وسل سيوفكم، واتخذوا على أبوابها المطاهر، وجمروها في الجمع"۔
الدر المختار مع رد المحتار: (656/1، ط: سعید)
ویحرم إدخال الصبیان والمجانین حیث غلب تنجیسهم، و إلا فیکرہ۔
(قوله یحرم ...الخ) لما أخرجه المنذري مرفوعاً: جنّبوا مساجد کم صبیانکم، و رفع اصواتکم،۔۔۔الخ
و المراد بالحرمة کراهة التحریم۔
قولہ: و إلا فیکرہ ؛ ای تنزیہا۔
فتاویٰ محمودیہ: (216/15)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی