سوال:
مفتی صاحب! ہم نے پچھلے سال ایک خاتون کو زکوۃ دی، اس خاتون نے کہا تھا کہ میں سید نہیں ہوں، لیکن ابھی ہم نے اس کے کارڈ پر سید لکھا دیکھا ہے، معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا ہماری پچھلے سال والی زکوۃ ادا ہوگئی یا نہیں؟
جواب: واضح رہے کہ اگر کسی شخص کو غیر سید اور مستحق سمجھ کر زکوٰۃ دی گئی ہو اور بعد میں پتا چلا کہ وہ مستحق نہیں تھا یا وہ سید تھا، تو ایسی صورت میں دوبارہ زکوٰۃ ادا کرنا ضروری نہیں ہے، لہذا صورت مسئولہ میں اگر آپ نے اس کے غیر سیدہ ہونے کی تحقیق کے بعد زکوٰۃ دی تھی اور واقعتا وہ خاتون غیر سیدہ ہے، تب تو آپ کی دی ہوئی زکوٰۃ بلا شبہ ادا ہو گئی ہے، لیکن اگر بعد میں پتا چلا کہ وہ خاتون سیدہ ہے، تب بھی آپ کے لیے دوبارہ زکوٰۃ ادا کرنا ضروری نہیں ہے، کیونکہ مصرف کی تعیین میں تحقیق کی غلطی معاف ہے، بشرطیکہ زکوٰۃ دینے سے پہلے پوری طرح تحقیق کر لی گئی ہو، لیکن اگر تحقیق کے بغیر زکوٰۃ دی اور بعد میں مصرف کی غلطی کا علم ہوا، تو زکوۃ ادا نہیں ہوئی، بلکہ ایسی صورت میں زکوٰۃ دوبارہ ادا کرنا لازم ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفتاوى الهندية: (190/1)
"وإذا دفعها، ولم يخطر بباله أنه مصرف أم لا فهو على الجواز إلا إذا تبين أنه غير مصرف، وإذا دفعها إليه، وهو شاك، ولم يتحر أو تحرى، ولم يظهر له أنه مصرف أو غلب على ظنه أنه ليس بمصرف فهو على الفساد إلا إذا تبين أنه مصرف، هكذا في التبيين".
الدر المختار: (353/2)
"( دفع بتحر ) لمن يظنه مصرفًا ( فبان أنه عبده أو مكاتبه أو حربي ولو مستأمنًا أعادها ) لما مر ( وإن بان غناه أو كونه ذميًا أو أنه أبوه أو ابنه أو امرأته أو هاشمي لا) يعيد؛ لأنه أتى بما في وسعه، حتى لو دفع بلا تحر لم يجز إن أخطأ".
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی