سوال:
مفتی صاحب! ہمارے محلے میں ایک مسجد ہے، جس میں کافی عرصہ سے بغیر میٹر کے کونڈے کی بجلی استعمال ہورہی ہے، اسی بجلی میں اذان، نماز، تراویح ہو رہی ہے، وضو کا پانی بھی اسی بجلی سے بھرا جاتا ہے، کیا مسجد میں کونڈے کی بجلی کا استعمال جائز ہے؟ نیز اس مسجد میں نماز پڑھنا یا دوسری عبادات کرنا جائز ہے؟
جواب: واضح رہے کہ مسجد میں چوری کی بجلی استعمال کرنا، ناجائز اور گناہ کا کام ہے۔ مسجد کی کمیٹی اور اہل محلہ کو چاہیے کہ چوری کی بجلی ختم کروا کر قانونی بجلی حاصل کریں، البتہ جو نمازیں اس بجلی کی روشنی میں پڑھی گئی ہیں، وہ ادا ہوگئی ہیں، ان کو دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
السنن الکبری: (باب كراهية مبايعة من أكثر ماله من الربا أو ثمن المحرم، 548/5، ط: دار الكتب العلمية)
عن شرحبيل مولى الأنصار , عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: "من اشترى سرقةً وهو يعلم أنها سرقة فقد أشرك في عارها وإثمها".
رد المحتار: (99/5، ط: سعید)
"والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لايحل له،ويتصدق به بنية صاحبه".
و فیہ ایضاً: (کتاب الغصب، فیما یجوز من التصرف بمال الغیر، 291/9)
لایجوز التصرف في مال غیره بلا إذنه ولا ولایته ''۔
امداد الفتاوی: (147/4)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی