سوال:
السلام علیکم، حضرت !کیا والدہ اپنے مستحق بیٹے کو جو علیحدہ کھاتا اور رھتا ہو اسے صدقہ فطر اور فدیہ دے سکتی ہیں؟ اسی طرح
کیا نانی اپنی نواسیوں کو جن کے ماں اور باپ نہ ہو اور وہ نانی کی ہی زیر کفالت ہوں، کیا انہیں صدقہ فطر اور فدیہ دے سکتی ہیں؟
مہربانی فرما کر رہنمائی فرما دیجیے گا۔
شکریہ
جواب: واضح رہے کہ زکوۃ ادا کرنے والا زکوۃ اور صدقات واجبہ (صدقہ فطر اور فدیہ وغیرہ) اپنے اصول (والدین، دادا،دادی، نانا، نانی وغیرہ)، فروع (بیٹا، بیٹی، پوتا، پوتی، نواسہ، نواسی، وغیرہ) اور شوہر یا بیوی کو نہیں دے سکتا، اس کے علاوہ اگر کوئی رشتہ دار غیر سید مستحقِ زکوة ہو، تو اس کو صدقۃ الفطر،فدیہ اور زکوۃ دی جا سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (التوبۃ، الآیۃ: 60)
إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمo
الدر المختار مع رد المحتار: (346/2، ط: دار الفکر)
(ولا) إلى (من بينهما ولاد) ولو مملوكا لفقير (أو) بينهما (زوجية) ولو مبانة وقالا تدفع هي لزوجها.
(قوله: وإلى من بينهما ولاد) أي بينه وبين المدفوع إليه؛ لأن منافع الأملاك بينهم متصلة فلا يتحقق التمليك على الكمال هداية۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی