سوال:
مفتی صاحب! اگر کسی ایسے ادارے کو زکوۃ دی جائے، جس کو زکوۃ دینے سے حکومت ٹیکس میں چھوٹ دیتی ہو، تو کیا اس ٹیکس میں کمی کے بقدر زکوٰۃ دوبارہ دینی ہوگی؟ یا ٹیکس میں کمی سے زکوۃ کی ادائیگی میں کوئی فرق نہیں پڑے گا؟
جواب: واضح رہے کہ جو رفاہی ادارے شریعت کے اصولوں کے مطابق زکوٰۃ وصدقات کو اس کے صحیح مصرف میں خرچ کرنے کا اہتمام کرتے ہوں، تو اسے زکوٰۃ دی جاسکتی ہے، ایسے ادارے کو زکوٰۃ دینے سے حکومت کی طرف سے ٹیکس میں ملنے والی چھوٹ سے زکوٰۃ کی ادائیگی پر اثر نہیں پڑے گا، البتہ زکوۃ صرف اتنی مقدار ہی میں ادا ہو گی،جتنی مقدار مستحقین تک پہنچے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (کتاب الزکاۃ، 256/2)
وشرعا… (تملیک جزء مال عینہ الشارع من مسلم فقیر غیر ھاشمی ولا مولاہ مع قطع المنفعۃ عن المملک من کل وجہ ﷲ تعالیٰ".
الفتاویٰ الھندیۃ: (189/1)
"اذا شک وتحری فوقع فی اکبر رأیہ انہ محل الصدقۃ فدفع الیہ اوسأل منہ فدفع أو رآہ فی صف الفقراء فدفع فان ظھرانہ محل الصدقۃ جاز بالاجماع وکذا ان لم یظھر حالہ عندہ".
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی