سوال:
اس زمانہ میں بعض لوگ خاص مواقع پر خانہ کعبہ اور روضہ مبارک کی شبیہ بناتے ہیں اورعوام ثواب کی نیت سے ان دونوں شبیہوں کی زیارت کرتے ہیں، اس بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟
جواب: بیت اللہ شریف اور روضۂ اقدس کی شبیہ (ماڈل) اس مقصد سے بنانا کہ کسی خاص موقع پر اس کی زیارت کروائی جائے، ایسا کرنا عموماً درج ذیل خرافات اور بدعات کا سبب بنتا ہے:
۱) عموماً ہمارے ہاں ربیع الاول کے موقع پر بیت اللہ اور روضہ اقدس کی شبیہ (ماڈل) بنا کر لوگوں کو عام زیارت کروائی جاتی ہے، جس کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ہے، بلکہ ایسا کرنا خود بیت اللہ شریف کی اہمیت کم کرنے کا باعث ہے، جو بیت اللہ شریف کے ادب کے خلاف ہے۔
۲) اس موقع پر لوگوں کا مخلوط اجتماع ہوتا ہے، جو بہت سے کبیرہ گناہوں کا سبب ہے۔
۳) کمزور عقیدہ کے لوگ اس شبیہ (ماڈل) کو عبادت سمجھ کر دیکھتے ہیں، بلکہ بعض بد عقیدہ لوگ باقاعدہ اس کا طواف کرتے ہیں۔
۴) اس میں بہت سا پیسہ خرچ ہوتا ہے جو کہ اسراف کے زمرے میں آتا ہے۔
لہذا مذکورہ بالا خرابیوں اور بدعات کی وجہ سے بیت اللہ شریف اور روضۂ اقدس کی شبیہ (ماڈل) بنانا جائز نہیں ہے، البتہ اگر کوئی شخص مذکورہ بالا خرابیوں سے اجتناب کرتے ہوئے شبیہ بناتا ہے، تب بھی اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاسکتی ہے، کیونکہ عوام ان حدود کی رعایت نہیں کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الكريم: (سورة الأعراف: 31)
"وَلا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ".
صحیح البخاري: (كِتَابُ الصُّلْحِ، بَابُ إِذَا اصْطَلَحُوا عَلَى صُلْحِ جَوْرٍ فَالصُّلْحُ مَرْدُودٌ، رقم الحديث: 2697، 184/3، ط: دار طوق النجاۃ)
عن عائشة رضي الله عنها، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "من أحدث في أمرنا هذا ما ليس فيه، فهو رد" رواه عبد الله بن جعفر المخرمي، وعبد الواحد بن أبي عون، عن سعد بن إبراهيم.
کشاف اصطلاحات الفنون و العلوم: (313/1، ط: مکتبة لبنان)
البدعة: بالكسر في اللغة ما كان مخترعا على غير مثال سابق، ومنه بديع السماوات والأرض أي موجدها على غير مثال سبق. قال الشافعي رحمه الله تعالى: ما أحدث وخالف كتابا أو سنة أو إجماعا أو أثرا فهو البدعة الضالة، وما أحدث من الخير ولم يخالف شيئا من ذلك فهو البدعة المحمودة. والحاصل أن البدعة الحسنة هي ما وافق شيئا مما مر، ولم يلزم من فعله محذور شرعي، وأن البدعة السيئة هي ما خالف شيئا من ذلك صريحا أو التزاما۔۔۔وفي الشرع ما أحدث على خلاف أمر الشارع ودليله الخاص أو العام۔۔۔وفي شرح النخبة وشرحه: البدعة شرعا هي اعتقاد ما أحدث على خلاف المعروف عن النبي صلى الله عليه وسلم لا بمعاندة، بل بنوع شبهة. وفي إشارة إلى أنه لا يكون له أصل في الشرع أيضا، بل مجرد إحداث بلا مناسبة شرعية أخذا من قوله صلى الله عليه وسلم «من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد»۔۔وقد فصل الشيخ عبد الحق الدهلوي في شرح المشكاة في باب الاعتصام بالكتاب والسنة فقال: اعلم بأن كل ما ظهر بعد النبي صلى الله عليه وسلم فهو بدعة. وكل ما وافق الأصول والقواعد أو القياس فتلك البدعة الحسنة. وما لم يوافق ذلك فهو البدعة السيئة والضلالة. ومفتاح «كل بدعة ضلالة» محمول على هذا".
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی