سوال:
مفتی صاحب ! میرے پاس چالیس ہزار والے پرائز بونڈ ہیں، وہ حکومت والے واپس لے کر رجسٹریشن کر کے ٹیکس لگا کر دوبارہ دے رہے ہیں، اور ان پر سود لگ رہا ہے، اگر میں وہ بونڈ لے کر اس پر جو اضافی رقم ( سود) ملے گا، وہ کسی غریب کو دے کر پرائز بونڈ قرعہ اندازی کے لیے دے سکتا ہوں؟
اور کیا اس پر نکلا ہوا انعام جائز ہوگا؟ نیز اس سود سے ٹیکس ادا کر سکتے ہیں؟
جواب: واضح رہے کہ پرائز بانڈ (Prize bond) کے ذریعے حاصل ہونے والی اضافی رقم سود ہے٬ جوکہ ناجائز اور حرام ہے٬ نیز اس میں "جوا" کا عنصر بھی موجود ہے٬ لہذا پرائز بانڈ کی خریداری کا معاملہ ناجائز اور حرام ہے٬ اس سے حاصل ہونے والی اضافی رقم وصول کرنا اور استعمال کرنا جائز نہیں٬ نیز اضافی رقم کسی غریب کو دینے یا اس سے ٹیکس کی ادائیگی میں استعمال کرنے کی نیت سے پرائز بانڈ کی خریداری معاملہ بھی جائز نہیں ہے٬ اس سے اجتناب لازم ہے، تاہم اگر اس کے باوجود کسی نے پرائز بانڈ خرید لیا اور قرعہ اندازی میں نام نکل آیا، تو انعام کی صورت میں ملنے والی اضافی رقم کو بلا نیت ثواب صدقہ کرنا ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (المائدۃ، الآیۃ: 90)
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالأَنصَابُ وَالأَزْلاَمُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَo
رد المحتار: (مطلب کل قرض جر نفعا، 166/5، ط: سعید)
"وفي الأشباه: كل قرض جر نفعاًحرام.
بحوث في قضايا فقهية معاصرة: (159/2)
"ویوجد في عصرنا نوع اخر من الجوائز وهو ما يعطى لحاملي السندات الحكومية (PRIZE BONDS) على أساس القرعة . والحكم الشرعي لهذه الجوائز موقوف على معرفة حقيقة هذه السندات. وحقيقتها أن الحكومة ربما تحتاج الى الاستقراض من عامة الشعب…وان هذه السندات تكون ربوية عادة بحيث ان الحكومتة تضمن لصاحبها أن تعيد اليه مبلغ القرض مع الفائدة الربوية"
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی