سوال:
مفتی صاحب ! کیا عورت اپنے شوہر کے رضاعی باپ اور رضاعی چچا کے سامنے بغیر حجاب کے آسکتی ہے اور ان کے ساتھ خلوت اختیار کر سکتی ہے؟
جواب: شریعت میں رضاعی باپ حقیقی باپ کے حکم میں ہے، لہذا جس طرح حقیقی سسر سے پردہ نہیں ہے، اسی طرح رضاعی سسر سے بھی پردہ نہیں ہے، البتہ اگر فتنے کا اندیشہ ہو، تو اس سے بھی پردہ کرنا ضروری ہے۔
جس طرح شوہر کا حقیقی چچا محارم میں سے نہیں ہے، اسی طرح شوہر کا رضاعی چچا بھی محارم میں سے نہیں ہے، لہذا اس سے پردہ کرنا ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
تفسير ابن كثير: (221/2، ط: دار الکتب العلمیة)
"فإن قيل: فمن أين تحرم امرأة ابنه من الرضاعة، كما هو قول الجمهور، ومن الناس من يحكيه إجماعاً وليس من صلبه؟ فالجواب من قوله صلى الله عليه وسلم: «يحرم من الرضاع ما يحرم من النسب»".
العنایۃ: (448/3)
(وَامْرَأَةُ أَبِيهِ أَوْ امْرَأَةُ ابْنِهِ مِنْ الرَّضَاعِ لَا يَجُوزُ أَنْ يَتَزَوَّجَهَا كَمَا لَا يَجُوزُ ذَلِكَ مِنْ النَّسَبِ) لِمَا رَوَيْنَا، وَذَكَرَ الْأَصْلَابَ فِي النَّصِّ لِإِسْقَاطِ اعْتِبَارِ التَّبَنِّي عَلَى مَا بَيَّنَّاهُ۔۔۔۔۔
بِأَنَّ حُرْمَةَ حَلِيلَةِ ابْنِ الرَّضَاعِ ثَابِتَةٌ بِالْحَدِيثِ الْمَشْهُورِ وَهُوَ قَوْلُهُ – عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ – «يَحْرُمُ مِنْ الرَّضَاعِ مَا يَحْرُمُ مِنْ النَّسَبِ»
کذا فی فتاوٰی بنوری تاؤن: رقم الفتوی: 144010200581
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی