سوال:
مفتی صاحب ! رمضان میں وتر کی نماز جماعت سے ہوتی ہے، میں تراویح کے ختم ہونے کے بعد پانی پینے اور وضو نیا کرنے گیا تو اتنے میں امام صاحب نے وتر کی جماعت شروع کرادی، میں جب پہنچا، تو تیسری رکعت تھی، اس صورت میں اگر وتر میں شامل ہوں، تو دعائے قنوت امام کے ساتھ پڑھنے کے بعد مجھے اپنی تیسری رکعت میں پھر سے پڑھنی ہوگی یا نہیں، اسی طرح اگر امام تیسری رکعت کے رکوع میں ہو، تو اس وقت شامل ہونے مقتدی نے دعائے قنوت نہیں پڑھی، تو وہ کیا کرے اور کب دعائے قنوت پڑھے؟
جواب: اگر کوئی شخص رمضان المبارک میں امام کے ساتھ وتر کی تیسری رکعت میں شریک ہوگیا، تو ایسے شخص پر بقیہ رکعات ادا کرتے وقت دعائے قنوت پڑھنا لازم نہیں ہے، چاہے اس نے قیام میں شریک ہوکر دعائے قنوت پڑھی ہو، یا رکوع میں شریک ہوکر دعائے قنوت نہ پڑھی ہو، کیونکہ ایسے شخص نے امام کے ساتھ تیسری رکعت پالی ہے اور دعائے قنوت تیسری رکعت میں پڑھی جاتی ہے، اس لیے اس کا قنوت ادا ہوگیا، لہذا اس کو دوبارہ دعائے قنوت پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
مراقی الفلاح: (ص: 144، ط: الکمتبۃ العصریۃ)
"ولو أدرك الإمام في ركوع الثالثة من الوتر كان مدركا للقنوت" حكما "فلا يأتي به فيما سبق به" كما لو قنت المسبوق معه في الثالثة أجمعوا أنه لا يقنت مرة أخرى فيما يقضيه لأنه غير مشروع
الدر المختار مع رد المحتار: (10/2، ط: دار الفکر)
وأما المسبوق فيقنت مع إمامه فقط، ويصير مدركا بإدراك ركوع الثالثة۔۔۔۔
(قوله فيقنت مع إمامه فقط) لأنه آخر صلاته، وما يقضيه أولهما حكما في حق القراءة وما أشبهها وهو القنوت؛ وإذا وقع قنوته في موضعه بيقين لا يكرر لأن تكراره غير مشروع شرح المنية
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی