سوال:
زکوٰۃ میں مال تجارت سے کیا مراد ہے؟ کیا اس کا بھی کوئی نصاب ہے؟
میں کیبن چلاتا ہوں جس میں بچوں کی کھانے کی چیزیں فروخت کرتا ہوں،کیا مجھے بھی زکوٰۃ دینی ہوگی؟
جواب: مال تجارت سے مراد وہ سامان ہے، جسے تجارت کی نیت سے خریدا گیا ہو، اور تا حال یہ نیت بر قرار ہو، لہٰذا اگر کوئی چیز ابتداءً تجارت کی نیت سے خریدی گئی تھی، لیکن اب فروخت کرنے نیت ترک کردی گئی ہو، تو وہ مال تجارت شمار نہیں ہوگا، اسی طرح اگر کوئی چیز ابتداءً تجارت کی نیت سے نہیں خریدی گئی تھی، لیکن اب فروخت کرنے کا ارادہ بن گیا ہے، تب بھی فقط تجارت کی نیت کرنے سے یہ چیز مالِ تجارت شمار نہیں ہوگی۔
مال تجارت پر زکوٰۃ فرض ہونے کی دو شرائط ہیں:
1۔ مال تجارت کی کل مالیت زکوٰۃ کے نصاب یعنی ساڑھے باون تولے چاندی کی مالیت کو پہنچے، یاد رہے کہ اگر کسی کے پاس سونا، چاندی اور رقم ہے تو اسکی مالیت بھی اسکے مال تجارت میں شامل کی جائے گی۔
2۔ اس مالیت پر سال گزرے، اور سال گزرنے کا مطلب یہ ہے کہ جس تاریخ کو آدمی صاحب نصاب ہوا ہو، اگر اگلے سال اسی تاریخ کو وہ صاحب نصاب ہے، (چاہے سال بھر میں اسکا مال کم زیادہ ہوتا رہا ہو) تو بھی اس پر زکوٰۃ واجب ہوگی۔
صورت مسئولہ میں اگر آپ کے کل مال تجارت کی مالیت خود یا دوسرے اموال کے ساتھ مل کر ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت تک پہنچ رہی ہے، اور اس پر سال بھی گزرچکا ہے، تو آپ پر زکوٰۃ واجب ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
بدائع الصنائع: (220/2، ط: دار الکتب العلمیة)
وأما أموال التجارة فتقدير النصاب فيها بقيمتها من الدنانير والدراهم فلا شيء فيها ما لم تبلغ قيمتها مائتي درهم أو عشرين مثقالا من ذهب فتجب فيها الزكاة، وهذا قول عامة العلماء، وقال أصحاب الظواهر: ولا زكاة فيها أصلا، وقال مالك: إذا نضت زكاها لحول واحد.
وجه قول أصحاب الظواهر أن وجوب الزكاة إنما عرف بالنص والنص ورد بوجوبها في الدراهم والدنانير والسوائم فلو وجبت في غيرها لوجبت بالقياس عليها والقياس ليس بحجة خصوصا في باب المقادير.
(ولنا) ما روي عن سمرة بن جندب أنه قال: «كان رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يأمرنا بإخراج الزكاة من الرقيق الذي كنا نعده للبيع» .
وروي عن أبي ذر - رضي الله عنه - عن النبي - صلى الله عليه وسلم - أنه قال: «في البر صدقة» ، وقال - صلى الله عليه وسلم -: «هاتوا ربع عشر أموالكم» فإن قيل: الحديث ورد في نصاب الدراهم؛ لأنه قال في آخره: " من كل أربعين درهما درهم ".
فالجواب أن أول الحديث عام وخصوص آخره يوجب سلب عموم أوله أو نحمل قوله من كل أربعين درهم على القيمة أي: من كل أربعين درهما من قيمتها درهم.
الدر المختار: (272/2، ط: سعید)
"(وما اشتراه لها) أي للتجارة (كان لها) لمقارنة النية لعقد التجارة (لا ما ورثه ونواه لها) لعدم العقد إلا إذا تصرف فيه أي ناويا فتجب الزكاة لاقتران النية بالعمل"۔
و فیہ ایضاً: (باب زکاة المال، 233/3)
و شرط کمال النصاب … في طرفي الحول، فی الابتداء للانعقاد، و فی الانتھاء للوجوب، فلا یضر نقصانہ بینھما، فلو ھلک کلہ بطل الحول "۔۔۔۔۔
قولہ:”فلو ھلک کلہ“ أي: في أثناء الحول بطل الحول، حتی لو استفاد فیہ غیرہ استأنف لہ حولاً جدیداً۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی