سوال:
مفتی صاحب ! میرے ایک دوست نے اندرون سندھ میں ایک پلاٹ لیا ہے، جس سے وہ فارم ہاؤس بنائے گا، اب تک 13 لاکھ روپے دے چکا ہے، اور 19 لاکھ روپے بقایا ہیں، زمین بیچنے والے نے کہا ہے کہ وہ آکر زمین پہ قبضہ کرسکتا ہے اور اس کو اپنے مقصد کیلئے تیار کرسکتا ہے، لیکن اس کے پاس اتنا مال ابھی نہیں ہے کہ وہ اس جگہ کو استعمال میں لے آئے۔
سوال یہ ہے کہ کیا اس پر ابھی زکوٰۃ ہے اور کب سے ہے؟
نوٹ: یہ زمین اس نے اپنے کاروبار کیلئے خریدی ہے۔
تنقیح
محترم! سوال میں مذکور آخری جملے "یہ زمین اس نے اپنے کاروبار کے خریدی ہے" کی وضاحت فرما دیں کہ کاروبار سے اس کی کیا مراد ہے، اس پر فارم ہاؤس بنا کر بیچے گا، یا فارم ہاؤس کرائے پر دے گا، یا اس پلاٹ کو بیچے گا۔
اس وضاحت کے بعد آپ کے سوال کا جواب دیا جائے گا۔
دارالافتاء الاخلاص، کراچی
جواب تنقیح:
ارادہ یہی ہے كہ فارم ہاؤس بنا کر رینٹ پر دیں گے، کچھ حصہ تقریبا 20 فیصد کیٹل فارم كے لیے مختص کر دیں گے، لیکن اس میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔
جواب: کرایہ پر دینے کے مقصد سے خریدی گئی زمین پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی ہے۔
ہاں! جب اس زمین کو کرایہ پر دیدیں، تو سال کے اخیر میں اس سے حاصل ہونے والی آمدنی (کرایہ) خود یا دوسرے اموال کے ساتھ مل کر اگر نصاب کو پہنچ جائے، تو اس پر زکوٰۃ واجب ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفتاوی الخانیۃ: (فصل في مال التجارۃ، 155/1)
"ولو اشترى الرجل دارا او عبدا للتجارة ثم اجره ، يخرج من ان يكون للتجارة ،لانه لما آجره فقد قصد المنفعة".
الفتاوى الهندية: (الباب الثالث في زكوة الذهب، 180/1)
"ولو اشترى قدورا من صفر يمسكها و يواجرها ، لا تجب فيها الزكوة كما لا تجب في بيوت الغلة".
الهداية: (كتاب الزكوة، 200/1)
"الزكوة واجبة على الحر العاقل۔۔۔۔اذاملك نصابا ملكا تاما، وحال عليه الحول".
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی