سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! امید اور دعا ہے کہ آپ اور آپبسے جڑے تمام خیریت سے ہوں گے۔
1- حضرت ! میرے والد مرحوم نے اپنی زندگی میں اپنی خواہش یہ ظاہر کی تھی کہ ان کی جائیداد ان کے 7 بچوں اور بیوی پر برابر تقسیم ہو۔
یہ بات انہوں نے لکھت یا وصیت میں نہیں کی، صرف زبانی اظہار کیا تھا، اب صورتحال یہ ہے کہ 3 بیٹیوں میں سے دو کہتی ہیں کہ تقسیم والد مرحوم کی خواہش کے مطابق ہو اور وہ حصہ اسی طرح لیں گی، جبکہ ایک بیٹی اور چار بیٹے شریعت کے مطابق وراثت کی تقسیم چاہتے ہیں۔
کسی ناخوشگوار واقعہ کو نظرانداز کرتے ہوئے،کیا ہم دو بہنوں کو جائیداد کی کل آمد کو آٹھ حصوں میں تقسیم کرکے ان کا حصہ نکال دیں اور بقیہ چھ افراد شرح کے حساب سے بقیہ رقم کو بانٹ لیں؟
2- ہماری ایک کمرشل پراپرٹی ہے، جو ہم نے کرائے پر دی ہوئی ہے اور جس میں خود اپنی بھی رہائش ہے۔ والد صاحب نے یہ پراپرٹی والدہ کے نام پر خریدی تھی، والد صاحب کا انتقال 1992 میں ہوا، چند سالوں بعد یہ تمام پراپرٹی ہم چار بھائیوں کے نام پر منتقل ہوگی، والدہ الحمداللہ حیات ہیں۔ چوں کہ والد ہی کماتے تھے، اس لئے پیسہ پراپرٹی میں ان کا تھا۔
سوال: کیا یہ پراپرٹی والد صاحب کے وفات کے بعد وراثت کہلائے گی یا نہیں؟
جواب: (1) واضح رہے کہ آدمی نے اپنے مرنے کے بعد جو مال چھوڑا ہو، وہ ترکہ اور وراثت کہلاتا ہے، شریعتِ مطہرہ میں اللہ جل شانہ نے ورثاء کے حصے اور حقوق متعین کردیے ہیں، یہ حصے اور حقوق کسی کے تبدیل کرنے، وصیت کرنے یا ساقط کرنے سے تبدیل یا ساقط نہیں ہوتے، لہذا صورتِ مسئولہ میں آپ کے والد صاحب کی مذکورہ وصیت شرعاً باطل ہے، اور اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔
لہذا ورثاء پر ایسی وصیت پر عمل کرنا لازم نہیں ہے، بلکہ شریعت کے مطابق ان کے متعین کردہ حصے ان کو ملیں گے۔
(2) اگر آپ کے والد نے مکان آپ کی والدہ کو مالک اور قابض بنا کر دیدیا تھا، تو یہ مکان آپ کی والدہ کی ملکیت شمار ہوگا، اور آپ کی والدہ اپنی زندگی میں اس کی تنہا مالکہ ہونگی، اور اگر آپ کے والد نے مذکورہ مکان صرف ان کے نام کیا تھا، اور انہیں مالک اور قابض بناکر نہیں دیا تھا، تب یہ مکان والد کی ملکیت شمار ہوگا اور ان کے انتقال کے بعد ان کے شرعی ورثاء میں تقسیم ہوگا۔
والد کی تجہیز و تکفین، قرض کی ادائیگی اور اگر کوئی جائز وصیت کی ہو، تو ایک تہائی (1/3) میں وصیت نافذ کرنے کے بعد کل جائیداد منقولہ و غیر منقولہ کو اٹھاسی (88) حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، جس میں سے بیوہ کو گیارہ (11)، ہر ایک بیٹے کو چودہ (14) اور ہر ایک بیٹی کو سات (7) حصے ملیں گے۔
اگر فیصد کے اعتبار سے تقسیم کریں، تو
بیوہ کو % 12.5 فیصد
ہر ایک بیٹے کو % 15.90
ہر ایک بیٹی کو % 7.95 فیصد ملے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النساء، الآیة: 11- 12)
يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ ۖ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ۔۔۔۔الخ
فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم ۚ مِّن بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ۔۔۔۔الخ
سنن الترمذی: (باب ما جاء في الوصیۃ للوارث)
عن أبي أمامۃ الباہلي رضي اللّٰہ عنہ قال: سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول فيخطبۃ عام حجۃ الوداع: "إن اللّٰہ تبارک وتعالیٰ قد أعطی کل ذي حقٍ حقہ، فلا وصیۃ لوارثٍ".
مشکوۃ المصابیح: (رقم الحدیث: 3074)
عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: "لا وصیۃ لوارث إلا أن یشاء الورثۃ".
عمدۃ القاری: (باب لا وصیۃ للوارث، 55/14، ط: دار الکتب العلمیۃ)
وقال المنذري: "إنما یبطل الوصیۃ للوارث في قول أکثر أہل العلم من أجل حقوق سائر الورثۃ، فإذا أجازوہا جازت، کما إذا أجازوا الزیادۃ علی الثلث".
مصنف عبد الرزاق: (باب الھبات، 107/9)
عن إبراہیم قال: الہبۃ لا تجوز حتی تقبض، والصدقۃ تجوز قبل أن تقبض۔
الدر المختار: (کتاب الھبۃ، 568/4، ط: دار الفکر)
وتتم الہبۃ بالقبض الکامل۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی