سوال:
مفتی صاحب ! کسی کی ملکیت میں ایک لاکھ روپے آگئے، اس نے زکوۃ کی تاریخ لکھ لی، اب سال کے دوران اس کے پاس صدقے فطر کے نصاب کے برابر بھی مال نہیں ہے تو کیا یہ شخص اب زکاۃ کا مستحق شمار ہوگا یا نہیں؟ یا اگر سال کے شروع میں تو نصاب کے برابر مال ہے، لیکن درمیان اور آخر سال میں نہیں ہے، تو کیا مستحق زکاۃ شمار ہوگا یا نہیں؟
جواب: جس شخص کے پاس کچھ مال ہے، مگر اتنا نہیں کہ نصاب کو پہنچ جائے یا مال تو بقدرِ نصاب ہے، مگر ضروریات اصلیہ کے علاوہ نہیں ہے، (ضروریات میں رہنے کا مکان ، پہننے کے کپڑے، استعمال کے برتن وغیرہ سب داخل ہیں،) تو ایسے شخص کے لئے زکوٰۃ لینا جائز ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (التوبۃ، الآیۃ: 60)
"إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَاِبْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنْ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌo
الھدایہ: (224/1، ط: مکتبہ رحمانیہ)
و لا یجوز دفع الزکوہ الی من یملک نصابا من ای مال کان، لان الغنی الشرعی مقدربه، و الشرط ان یکون فاضلا عن الحاجۃ الاصلیۃ، و انما النماء شرط الوجوب، و یجوز دفعھا الی من یملک اقل من ذلک و ان کان صحیحا مکتسبا، لانہ فقیر، و الفقراء ھم المصارف، و لان حقیقۃ الحاجۃ لا یوقف علیھا، فادیر الحکم علی دلیلھا، و ھو فقد النصاب۔
کذا فی فتاویٰ بنوری تاؤن: رقم الفتویٰ: 143908200509
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی