عنوان: بیٹوں کے نام خریدی گئی زمین کس کی ملکیت ہوگی؟ نیز والد کی بیماری کی میں والد کا مکان فروخت کرنا (7687-No)

سوال: مفتی صاحب ! میرے بھائی نے والد صاحب کے پیسوں سے مکان خرید کر اپنے نام کرلیا، اب وہ مجھے اس مکان سے نکالنا چاہ رہا ہے، کیا میرا اس مکان میں میراث میں کوئی حصہ بنتا ہے؟ اگر بنتا ہے، تو کتنا بنتا ہے؟ براہ کرم وضاحت فرمادیں۔
تنقیح:
محترم! اس بات کی وضاحت فرمائیں کہ کیا آپ کے والد صاحب حیات ہیں؟
اگر حیات ہیں تو آپ کے بھائی نے ان کے پیسوں سے جو مکان خرید کر اپنے نام کیا ہے، تو کیا والد صاحب اس پر راضی ہیں؟
اگر خدا نخواستہ آپ کے والد صاحب کا انتقال ہو گیا ہے، تو کیا والد صاحب کی میراث تقسیم ہونے سے پہلے آپ کے بھائی نے وہ مکان خریدا ہے؟
اس وضاحت کے بعد آپ کے سوال کا جواب دیا جائے گا۔
جواب تنقیح:
والد صاحب فالج کی وجہ سے علیل تھے، بھائی نے موقع کا فائدہ اٹھا کر والد صاحب کی کمائی سے بنا ہوا مکان والد صاحب کی رضامندی کے بغیر فروخت کر کے موجودہ مکان اپنے نام سے خرید لیا تھا۔
والد صاحب اور والدہ دونوں کا انتقال ہوگیا ہے۔
والد صاحب نے یہ بنگلہ، اپنی بیوی اور ہم دو بھائیوں کے نام پر خریدا تھا۔

جواب: واضح رہے اگر مکان صرف بیوی اور بچوں کے نام کیا ہو، اور مالکانہ تصرف اور قبضہ نہیں دیا ہو، تو وہ مکان والد کی ملکیت شمار ہوتا ہے، اور اگر والد نے مالکانہ تصرف اور قبضہ بھی دیدیا ہو، تو یہ مکان بیوی بچوں کی ملکیت شمار ہوتا ہے۔
صورت مسئولہ میں اگر والد صاحب نے بیوی بچوں کو قبضہ اور مالکانہ تصرف نہیں دیا تھا، تو چونکہ آپ کے بھائی اس کے مالک ہی نہیں تھے، تو شرعاً ان کے لیے اس مکان کو بیچنا جائز نہیں تھا، وہ مکان یا اس کی فروختگی کے بعد ملنے والی رقم بدستور آپ کے والد مرحوم کے ترکہ میں شمار ہوگی، لہذا وہ مکان یا اس کی رقم والد صاحب کی وفات کے وقت زندہ شرعی ورثاء میں قانون وراثت کے مطابق تقسیم ہوگی۔
اور اگر والد صاحب نے بیوی بچوں کو مالکانہ تصرف اور قبضہ دے کر سب کے حصے الگ کر کے ممتاز کردیے تھے، تو بھائی کا اپنا حصہ فروخت کرنا صحیح تھا، باقی والدہ اور دوسرے بھائی کے حصے کو فروخت کرنا درست نہیں تھا، لہذا اس صورت میں بھائی پر والدہ اور دوسرے بھائی کے حصے کی رقم لوٹانا واجب ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الدر المختار: (689/5، ط: سعید)
"بخلاف جعلته باسمك فإنه ليس بهبة"۔

شرح المجلۃ لسلیم رستم باز: (رقم المادۃ: 837)
تنعقد الہبۃ بالإیجاب والقبول، وتتم بالقبض الکامل؛ لأنہا من التبرعات، والتبرع لا یتم إلا بالقبض".

الفتاوی الھندیۃ: (الباب الثانی فیما یجوز من الھبۃ، 378/4، ط: رشیدیہ)
"لايثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية".

الھدایۃ: (329/4، ط: دار احياء التراث العربي)
قال: "وينبغي للقاسم أن يصور ما يقسمه" ليمكنه حفظه "ويعدله" يعني يسويه على سهام القسمة ويروى يعزله: أي يقطعه بالقسمة عن غيره "ويذرعه" ليعرف قدره "ويقوم البناء" لحاجته إليه في الآخرة "ويفرز كل نصيب عن الباقي بطريقه وشربه حتى لا يكون لنصيب بعضهم بنصيب الآخر تعلق" فتنقطع المنازعة ويتحقق معنى القسمة على التمام۔

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 1065 May 28, 2021
beton kay naam khareedi gayi zameen kis ki milkiat hogi?neez walid ki beemari mai waalid ka makaan farookht karna, Who will own the land purchased in the name of sons? Also selling father's house in case of father's illness

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Inheritance & Will Foster

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.