سوال:
میرے پاس احرام کی چادریں ہیں، جن کو پہن کر میں نے پچھلے سال فرض حج کیا تھا، کیا میں ان چادروں کو آب زمزم سے دھو کر اپنے لئے کفن کے طور پر رکھ سکتا ہوں، اس میں کوئی قباحت تو نہیں ہے؟
جواب: صورتِ مسئولہ میں آپ کے لئے تبرکاً احرام کی چادروں کو آبِ زمزم سے دھو کر اپنے لئے کفن کے طور پر رکھنے میں کوئی حرج اور قباحت نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
مرقاۃ المفاتیح: (106/4)
وعن عبداللہ بن عباس قال ان رجلا کان مع النبی ﷺ فوقصتہ ناقتہ وھو محرم فمات فقال رسول اﷲ ﷺ((اغسلوہ بماء سدر وکفنوہ فی ثوبیہ ولا تمسوہ بطیب ولا تخمّروا راسہ فانہ یبعث یوم القیامۃ ملبّیا)) متفق علیہ۔ وقد قال علیہ الصلوۃ والسلام فی ذلک المحرم کفنوہ فی ثوبیہ وھما ثوبا احرامہ ازارہ ورداؤہ ومعلوم ان ازارہ من الحقو وکذا حدیث ام عطیۃ۔
عمدۃ القاری: (61/8- 63)
(باب من استعد الکفن فی زمن النبی ﷺ فلم ینکر علیہ) واستفید من ذلک جواز تحصیل مالا بد للمیت منہ من کفن ونحوہ فی حال حیاتہ لان افضل ماینظر فیہ الرجل فی الوقت المھمل وفسحۃ الاجل الاعتداد للمعاد۔ وفیہ التبرک بآثار الصالحین وفیہ جواز اعداد الشیٔ قبل وقت الحاجۃ الیہ۔
فتح الباری: (103/11- 107- 108)
(قولہ باب الکفن فی القمیص الذی یکف اولایکف) …وکذا رایتہ فی اصل ابی القاسم بن الورد قال والذی یظھر لی ان البخاری لحظ قولہ تعالیٰ استغفر لھم اولا تستغفر لھم ای ان النبی ﷺ البس عبداﷲ بن ابی قمیصہ سواء کان یکف عنہ العذاب اولا یکف استصلاحا للقلوب المولفۃ فکأنہ یقول یوخذ من ھذا التبرک بآثار الصالحین سواء علمنا انہ مؤثر فی حال المیت اولا۔ واستنبط منہ الاسما عیلی جواز طلب آثار اھل الخیر منھم للتبرک بھا وان کان السائل غنیا فیستفاد منہ جواز تحصیل مالا بد للمیت منہ من کفن ونحوہ فی حال حیاتہ۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی