سوال:
مفتی صاحب ! ایک خاتون کے پاس چالیس سال سے زیورات موجود تھے، لیکن اس کی مقدار معلوم نہیں، اب وہ ان چالیس سال کی زکوۃ کیسے ادا کرے، جبکہ وہ زیورات اصلی حالت میں اور مکمل موجود نہیں ہیں؟
جواب: اگر مذکورہ خاتون صاحب نصاب ہیں، اور انہوں نے اپنے زیورات کی گزشتہ چالیس سال کی زکوٰۃ ادا نہیں کی، تو ان کے لئے ضروری ہے کہ سابقہ ان تمام سالوں کی زکوٰۃ ادا کریں، جن سالوں میں وہ صاحب نصاب تھیں۔
زکوٰۃ ادا کرنے کے لئے پہلے ہر سال کی اپنے مملوکہ زیورات کی مقدار کا محتاط اندازا لگائیں، اور جہاں تک ممکن ہو، اس بات کی کوشش کریں کہ اندازا لگاتے وقت کچھ زیادہ لگالیں، تاکہ زکوٰۃ ذمہ میں نہ رہ جائے، زکوٰۃ کی مقدار معلوم کرنے کے لئے پہلے سال کے زیورات کا ڈھائی فیصد نکالیں، اس ڈھائی فیصد کو دوسرے سال کے زیورات سے منفی کرکے مابقی کا ڈھائی فیصد نکالیں، اور اس ترتیب سے کل 40 سالوں کی زکوٰۃ کی مقدار سونے میں معلوم کریں، اب ان چالیس سالوں کی زکوٰۃ کی مقدار کا سونے یا اس کی موجودہ قیمت کسی مستحق کو دے دیں، یہ اس صورت میں ہے، جب مذکورہ خاتون چالیس سال کے اس پورے عرصے میں صاحب نصاب رہی ہوں، لیکن اگر درمیان میں چند سال ایسے بھی گزرے ہیں، جن میں یہ خاتون صاحب نصاب نہ رہی ہوں، تو ان سالوں میں کوئی زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
بدائع الصنائع: (کتاب الزکاۃ، 7/2، ط: سعید)
وأما وجوب الزكاة فمتعلق بالنصاب إذ الواجب جزء من النصاب، واستحقاق جزء من النصاب يوجب النصاب إذ المستحق كالمصروف … وبيان ذلك أنه إذا كان لرجل مائتا درهم أو عشرين مثقال ذهب فلم يؤد زكاته سنتين يزكي السنة الأولى، وليس عليه للسنة الثانية شيء عند أصحابنا الثلاثة، وعند زفر يؤدي زكاة سنتين، وكذا هذا في مال التجارة، وكذا في السوائم إذا كان له خمس من الإبل السائمة مضى عليها سنتان ولم يؤد زكاتها أنه يؤدي زكاة السنة الأولى وذلك شاة ولا شيء عليه للسنة الثانية، ولو كانت عشراً وحال عليها حولان يجب للسنة الأولى شاتان وللثانية شاة، ولو كانت الإبل خمساً وعشرين يجب للسنة الأولى بنت مخاض وللسنة الثانية أربع شياه. ولو كان له ثلاثون من البقر السوائم يجب للسنة الأولى تبيع أو تبيعة ولا شيء للسنة الثانية وإن كانت أربعين يجب للسنة الأولى مسنة وللثانية تبيع أو تبيعة".
أصول السرخسي: (25/1)
والأخذ بالاحتياط في باب العبادات أصل۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی