عنوان: کمپنی کے ایجنٹ کا دوائیوں کے سیمپل بازار میں بیچنے اور ان سے خریدنے کا شرعی حکم(7712-No)

سوال: السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیافرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرے بھائی مارکیٹ سے دوائی کy سیمپل خرید کرلائے ہیں، کیا میں ان خریدی ہوئی دوائی استعمال کرسکتی ہوں یا نہیں؟
یہ سیمپل دوائی عام طورپہ کمپنی ڈاکٹر کو فری دینے کے لئے دیتی ہے، بسا اوقات ڈاکٹر یہی میڈیسن مارکیٹ والوں کو کم قیمت میں فروخت کرنے کے لئے دیتے ہیں اور بسا اوقات کمپنی کا ملازم ڈاکٹرز کے لئے کمپنی سے سیمپل لیتا ہے، کچھ ڈاکٹر کو دیتا ہے اور کچھ خیانت کرکے مارکیٹ میں کم قیمت میں فروخت کرنے کے لئے دیتا ہے۔ اب یہ سیمپل خریدنا اور خریدی ہوئی سیمپل استعمال کرنے کا کیا حکم ہے؟
چونکہ اصل میڈیسن مہنگی اورغریب کے استعمال سے دور ہوتی ہے، عام طور پہ مزدور اور غریب طبقہ یہی سیمپل خرید کراستعمال کرتا ہے۔
براہ کرم اس بارے میں تفصیلی رہنمائی فرماکرمشکور وممنون فرمائیں۔

جواب: جو دوائیاں کمپنی کی طرف سے ایجنٹ حضرات کو بطورِ ملکیت دی جاتی ہیں، وہ ان ایجنٹ حضرات کی ملکیت ہوتی ہیں، انہیں اگر بازار میں فروخت کرنا چاہیں، تو فروخت کرسکتے ہیں۔
لیکن اگر وہ دوائیاں کمپنی کی طرف سے ایجنٹ حضرات کو بطور ملکیت نہیں دی جاتی، بلکہ ڈاکٹر حضرات یا میڈیکل اسٹورز تک پہنچانے کے لیے ان کو بطور امانت دے کر وکیل بنایا جاتا ہے، تو ایسی صورت میں ان دوائیوں کو فروخت کرنا اور ان کی فروخت کردہ دوائیوں کو خریدنا جائز نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

صحيح مسلم: (باب تحريم ظلم المسلم و خذله و احتقاره و دمه، رقم الحديث: 2564)
حدثنا عبد الله بن مسلمة بن قعنب، حدثنا داود يعني ابن قيس، عن أبي سعيد، مولى عامر بن كريز، عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا تحاسدوا، ولا تناجشوا، ولا تباغضوا، ولا تدابروا، ولا يبع بعضكم على بيع بعض، وكونوا عباد الله إخوانا المسلم أخو المسلم، لا يظلمه ولا يخذله، ولا يحقره التقوى هاهنا» ويشير إلى صدره ثلاث مرات «بحسب امرئ من الشر أن يحقر أخاه المسلم، كل المسلم على المسلم حرام، دمه، وماله، وعرضه».

شعب الايمان للبيهقي: (باب في قبض الید عن الأموال المحرمۃ، رقم  الحديث: 5492، ط: دار الکتب العلمیۃ)
عن علی بن زید عن أبي حرۃ الرقاشي عن عمہ: أن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم قال: ألا ! لایحل مال إمرئ مسلم، إلا بطیب نفس منہ۔

الاشباہ و النظائر: (باب البیع الفاسد، 98/5، ط: دار الفکر)
الحرمۃ تتعدی مع العلم بھا، الّا فی حق الوارث.
وما نقل عن بعض الحنفیۃ من أن الحرام لا یتعدی زمتین، سألت عنہ الشھاب بن الشلبي فقال: ھو محمول علی ما إذا لم یعلم بذٰلک، أما لو رأی المکاس مثلا یأخذ من أحد شیئا من المکس، ثم یعطیہ آخر، ثم یأخذ من ذٰلک الآخر فہو حرام۔

الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیة: (ضمان الوكيل ما تحت يده من أموال، 87/45، ط: وزارة الأوقاف و الشئون الإسلامية)
الوكيل أثناء قيامه بتنفيذ الوكالة مقيد بما يقضي به الشرع من عدم الإضرار بالموكل؛ لقول رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا ضرر ولا ضرار، ومقيد بما يأمره به موكله، كما أنه مقيد بما يقضي به العرف إذا كانت الوكالة مطلقة عن القيود، فإذا خالف كان متعديًا ووجب الضمان.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 1220 Jun 01, 2021
company ky agent ka dawaion kay sample bazaar mai bechnay or un say khareednay ka shar'ee hukum, Shariah order of the agent of the company to sell and buy samples of medicines in the market

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Business & Financial

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.